مقبوضہ کشمیر …جہاں انسان اپنے حقوق کے بغیر زندہ ہیں
5مودی سرکار نے اگست 2019 کو آئین کا آرٹیکل 370 ختم کر دیا تھا جس کے بعد کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ واپس لے لیا گیا۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی رو سے جموں و کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری، ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا، یہاں نوکری نہیں کر سکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور پر سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔کشمیریوں کی خصوصی حیثیت کی تبدیلی کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر دنیا کے واحد ایسے خطے یں تبدیل ہو گیا جہاں انسان اپنے حقوق کے بغیر زندہ ہیں ۔بھارت نے اظہار رائے کی آزادی سمیت کشمیریوں کے تمام بنیادی حقوق غضب کررکھے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج اور پولیس کی قتل و غارت گری، ماورائے عدالت قتل، غیرقانونی حراست، تشدد، پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال، املاک کو نقصان پہنچانا اور خواتین کی بے حرمتی کرنا معمول بن گیا ہے۔ان سب کے ساتھ بھارت کے فاشسٹ سیکورٹی ادارے نہتے،معصوم اور بے قصور کشمیریوں کو بے دردی سے قتل کررہے ہیں۔ وادی میں کاروبار،مارکیٹس، سکولز ،انٹرنیٹ پبلک ٹرانسپورٹ اور دیگر تمام بنیادی سولیات کو بند کر رکھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور لاک ڈاؤن کو آج ایک سال مکمل ہو گیا ،مگر بھارت کا ظلم و جبرنہ رک سکا۔ مقبوضہ کشمیر میںآج مسلسل ایک سال سے مواصلاتی روابط منقطع ہیں۔ انٹرنیت، موبائل فون اور دیگر زمینی مواصلاتی روابطے درہم برہم ہیں۔ بازار بند ہیں ا بیماروں کے علاج معالجے اور ان کی طبی معاونت کا کوئی ذریعہ نہیں۔ کشمیری عوام اپنے حق خود اردایت کے حصول کے لیے 30 سال سے جدو جہد کررہے ہیں اور اس دوران اب تک ایک لاکھ سے زائدافراد کو شہید کیا جا چکا ہے۔دی فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں اینڈ کشمیر کی رپورـٹ"ـ ـجموں و کشمیر انسانی حقوق پر لاک ڈائونز کے اثرات"ـ ـــ ــ کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر میں گذشتہ ایک سال سے جاری لاک ڈائون کی وجہ سے مقامی معیشت کو تقریبا 40 ہزار کروڑ روپے کا نقصان پہنچا ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی حکومت کے 5 اگست 2019 کے یکطرفہ فیصلے کی وجہ سے کشمیری عوام ہندوستان اور اس میں رہنے والے عوام سے مکمل طور پر بیگانہ ہوگئے ہیں۔ وادی کشمیر میں کام کرنے والے صحافیوں کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کیخلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والے کالے قانون ''یو اے پی اے '' کے تحت مقدمے درج کئے جاتے ہیں۔ اس میں مقبوضہ جموں و کشمیر حکومت کی نئی میڈیا پالیسی کو 'آزاد میڈیا' اور 'اظہار رائے کی آزادی' پر حملہ قرار دیا گیا ہے۔جموں و کشمیر میں نئے ڈومیسائل قوانین کے نفاذ، جن کے تحت غیر مقامی شہری بھی یہاں رہائش اختیار کر سکتے ہیں، نے اس یونین ٹریٹری میں بے روزگاری بڑھنے کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ وادی کشمیر میں جاری مسلسل لاک ڈائون کے تعلیمی شعبے پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور سست رفتار 2G موبائل انٹرنیٹ سروس کے باعث آن لائن کلاسزکا انعقاد ناممکن ہوگیا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں، بھارت کی فاشسٹ مودی حکومت نے گذشتہ سال 5 اگست کو مسلط کردہ فوجی محاصرے کو ایک سال مکمل ہو گیا۔بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بھارتی فوجیوں نے بھارت کی فسطائی مودی حکومت کی طرف سے گزشتہ سال 5 اگست سے نافذ کئے گئے فوجی محاصرے کے دوران4 خواتین سمیت 214 کشمیریوں کو شہید کردیا۔کشمیر میڈیا سروس کے ریسرچ سیکشن کی طرف سے گزشتہ سال 5اگست کو ایک سال مکمل ہونے پر جاری کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے پر امن مظاہرین اور سوگواران پر طاقت کے وحشیانہ استعمال سے 1390 کشمیری زخمی ہو گئے۔گزشتہ سال5اگست کے بعد سے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید کشمیریوں کی تعداد 2011سے 2015اور2019میں شہید کیے گئے کشمیریوں سے زیادہ ہے۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ان میں سے بیشتر کشمیریوں کومقبوضہ علاقے کے اطراف تلاشی اور محاصرے کی کارروائیوں کے دوران جعلی مقابلوں میں شہید کیاگیا۔ بھارتی فوجی کشمیری نوجوانوں کو گھروں سے حراست میں لیکر بعد ازاں مجاہدین یا ان کے ساتھی قراردیتے ہوئے جعلی مقابلوں میں شہید کردیتے ہیں۔ادھر بھارتی حکام نے 5 اگست سے قبل وادی کشمیر میں مزید پابندیاں عائد کردی ہیں 5اگست کو آزاد کشمیر پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کا شکار معصوم کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر یوم استحصال منا رہے ہیں ۔جس کے اعلان کے ساتھ ہی قابض حکام نے بیشتر سڑکوں اور بازاروں کو سیل کردیا ہے اور لاؤڈ اسپیکروں پر اعلانات کئے جارہے ہیں جن میں لوگوں کو گھروں کے اندر رہنے کو کہا جارہا ہے۔تشدد اور جبر کا یہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔8 جولائی 2016 کو برہان وانی کی شہادت کے بعد سے اب تک ایک ہزار 31 کشمیریوں کو شہید کیا گیا، 27 ہزار 739 کشمیریوں پر تشدد اور زخمی کیا۔ کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق 1989 سے اب تک بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں 897 بچوں کو شہید کیا، ا یک لاکھ 7 ہزار 790 بچے یتیم ہوئے، 95 ہزار 557 کشمیری شہید کیے جا چکے ہیںمگربھارت کے غیر قانونی زیر مقبوضہ جموں و کشمیر میں فوج کی بربریت رک نہ سکی۔ محاصروں اور جعلی مقابلوں کی آڑ میںصرف ماہ جولائی میں 24کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا۔انتہا پسند بھارت کا مظلوم کشمیریوں پر ظلم و جبر جاری ہے۔ گزشتہ ماہ جولائی کے دوران قابض بھارتی فوج نے پیلٹ گنوں، گولیوں اور آنسوگیس کی شیلنگ سے 59 پُرامن کشمیریوں کو زخمی کیا۔
دوسری جانب حریت رہنماء اشرف صحرائی سمیت مقبوضہ وادی کے 98 افراد کو گرفتار کیا۔ قابض بھارتی فورسز نے محاصروں اور سرچ آپریشن کے دوران 11 مکانات بھی تباہ کیے۔بھارتی حکومت نے عید الاضحی کے موقع پر بھی اپنی روایات نا بدلیں اور مقبوضہ وادی کے مسلمانوں کو مساجد میں عید کی نماز ادا نہ کرنے دی۔ عید کے دوسرے دن بھی بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیرمیں گلیوں اور بازاروں میں کرفیو کا سماں تھا۔دوسری جانب مودی سرکار نے بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیرمیں4G انٹرنیٹ سروس کو معطل کیا ہوا ہے۔ مقبوضہ وادی میں ہائی سپیڈ انٹرنیٹ سروس کو معطل کئے ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔ بھارت مظلوم کشمیریوں کی آواز دبانے لے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے جن میں سے ایک انٹرنیٹ سروس معطل کرنا بھی ہے۔انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں اور ہندوستانی بربریت کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ حریت میں کمی نہیں آئی۔اور وہ قربانیوں کی داستان رقم کرتے ہوئے نہیں گھبرا رہے۔ مگر عالمی برادری کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کا ادراک کرے،اور انسانی حقوق کے کنونشنز کے تحت بھارت کو جوابدہ بنائے۔