ریاست مدینہ کی تشکیل میں صلح حدیبیہ ذی قعدہ /6 ہجری کو ٹرننگ پوائنٹ کی حیثیت حاصل ہے، مشرکوں، بت پرستوں اور قریش کی طرف سے معاندانہ حملوں سے سکون ملا، تو رسالت مآب نے منصب رسالت کے اہم رُکن یعنی اللہ کے پیغام کو اللہ کی مخلوق تک پہنچانے پر یک سوئی سے توجہ فرمائی۔ آپ نے جزیرہ نمائے عرب کے رئوسا اور ملوک کو دعوتی خطوط لکھے، یہ خطوط فصاحت و بلاغت کا بے مثال نمونہ تو ہیں ہی، لیکن فکر اور اختصار کے لحاظ سے بھی اپنی مثال آپ ہیں، ادب عالیہ سے مَس رکھنے والوں کے لیے بھی اُن کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ لطف یہ کہ پھر جس پائے اور درجے کے رئوسا، اُمرا اور ملوک کے لیے یہ خط لکھے گئے، اُنہیں پہنچانے کے لیے اصحاب کرامؓ بھی اُسی پائے کے منتخب کئے گئے۔ یہ ایسے لوگ ہوتے تھے جو سفارت کاری میں کمال کا درجہ رکھتے تھے۔ ان میں ایک خط قیصر شاہ روم کے نام بھی تھا، جو ایرانیوں کو تازہ تازہ شکست دے کر اظہار تشکر کے طور پر بیت المقدس مقیم تھا۔ اُسے خط پہنچانے کی سعادت حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی کے حصے میں آئی۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ یہ خط سربراہِ بصری کے حوالے کر دیں اور وہ اسے قیصر کے پاس پہنچا دے گا۔ عین انہیں دنوں قریش کی ایک جماعت ابوسفیان کی سربراہی میں بیت المقدس میں بسلسلہ تجارت موجود تھی۔
ہر قل نے نامۂ مبارک اتنے احترام اور غور سے پڑھا، جتنا کہ بادشاہ بادشاہوں کے پڑھا کرتے ہیں، پھر درباریوں کو نامہ مبارک کے مندرجات سے آگاہ کیا اور مشاورت چاہی ایک نہایت بزرگ اور دانا درباری اپنی جگہ سے اُٹھا اور مشورہ دیا کہ یہاں ان دنوں صاحب نامہ کے ہم قوموں کی ایک جماعت بغرض تجارت وارد ہے۔ کیوں نہ خط پر ردِ عمل دینے کے لیے اُن سے بھی معلومات لے لی جائیں چنانچہ مشورہ قبول کر لیا گیا۔ ابوسفیان کی طلبی ہو گئی۔ ابوسفیان کی نامہ مبارک ہرقل تک پہنچنے کی اطلاع مل چکی تھی اور اسے یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ اسے دربار میں کیوں طلب کیا جا رہا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے مختصراً ابوسفیان کے بارے میں بھی جان لیجئے کہ وہ کون تھا؟ تفصیلات میں جائے بغیر بس اتنا جان لیجئے کہ اُس وقت روئے زمین پر اسلام اور پیغمبر اسلام کا اس سے بڑا دشمن کوئی نہیں تھا۔ اگرچہ ابوجہل اور ابو لہب اور اُس کے بعض دوسرے ہم قبیل واصل جہنم ہو چکے تھے لیکن ابوسفیان اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم دشمنی میں اُن کے مشن کو پورے جوش و خروش سے جاری رکھے ہوئے تھا۔ وہ اور اس کی جماعت شاداں و فرحاں دربار قیصر کی طرف رواں دوان تھی کہ قدرت کتنی مہربان ہے۔ آنجنابؐ اور آپ کی دعوت کو (نعوذبااللہ) بدنام کرنے کا موقعہ خودبخود ہی میسرآ گیا ہے۔
ابوسفیان دربار میں حاضر ہو کر آداب بجا لایا۔ ہرقل نے مخصوص نشست پر بیٹھنے کا اذن دیا اور ساتھ ہی طلب کرنے کا سبب بتایا۔ ہرقل نے صرف ایک شرط لگائی کہ کسی سوال کے جواب میں غلط بیانی نہیں کرو گے سوال و جواب کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں موضوع سے متعلق صرف ایک سوال کے متعلق بتانا ہی کافی رہے گا۔ ہرقل نے پوچھا کہ’’اس نے جو بات (دعویٰ رسالت) کہی ہے کیا اسے کہنے سے پہلے تم لوگ اس کو جھوٹ سے مہتمم کرتے تھے ‘‘ ابو سفیان نے جواب دیا نہیں، اگرچہ اُس کا دِل کہہ رہا تھا کہ ہم تو اسے اعلان نبوت سے بھی پہلے تو صادق و امین کہتے تھے۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ اس دن میں یہ جواب دیتے ہوئے اندر سے ٹوٹ پھوٹ گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ رسول اللہ کا دین غالب آ کر رہے گا یہاں تک کہ اللہ نے میرے اندر اسلام کو جاگزیں کر دیا۔ سبحان اللہ! سچائی میں کتنی قوت ہے!
اس طویل تمہید سے بتانا یہ ہے کہ وہ ایک ایسا معاشرہ تھا کہ بُرے لوگ بھی جھوٹ بولنے سے کتراتے تھے اسی لیے کہا گیا ہے کہ ’’کفار کے اخیار اسلام میں بھی آ کر اخیار ثابت ہوئے‘‘ دشمن اسلام بھی سچائی کا انکار نہ کر سکا مگر آج اسلام کے نام پر بننے والی مملکت پاکستان میں جہاں چاروں طرف امین و صادق کی چھلنی یا ترازو لگی ہوئی ہے۔ کوئی عوامی نمائندگی کے شرف سے مشرف نہیں ہو سکتا۔ کوئی اعلیٰ منصب پر جاگزین نہیں ہو سکتا ۔ جب تک اسی کسوٹی پر پرکھ نہ لیا جائے۔ ہمارے اعلیٰ اداروں کے سربراہ، امین و صادق کی چھلنی سے گزر کر ہی اپنے اپنے مراتب اور مناصب تک پہنچے ہیں۔ ایک وہ بھی دور تھا کہ کٹر دشمن اسلام سے پوچھا گیا تو وہ معلوم دنیا کے سب سے طاقتور بادشاہ کے سامنے جھوٹ بولنے کی جرأت نہ کر سکا۔ اگر آپ انسانی نفسیات اور ذہنیت کا کیمیائی تجزیہ کریں تو ابو سفیان کیا ہٹلر گوئبلز، میسولینی، نریندر مودی اور وطن عزیز کے حزب اختلاف کے ارکان اور ارباب اقتدار کوئی بھی جھوٹ بولنے کی جسارت نہیں کر سکتا ۔ بشرطیکہ ذہنیت کے اس حصے کو جسے ضمیر کہا جاتا ہے ۔ مصلحت کیشی کی خوراک نہ پلا دی گئی ہو۔ جن دنوں قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی داخل ہو رہے تھے تو آنکھیں یہ خبر پڑھنے اور کان یہ سننے کو ترس گئے تھے کہ ابھی کوئی اللہ کا بندہ اٹھے گا اور باآواز بلند پکارے گا، یارو میں کاغذات نامزدگی واپس لیتا ہوں۔ میں سخت نادم ہوں کہ میں نہ امین ہوں اور نہ صادق۔ اہل وطن نے بیسیوں کاغذات مسترد ہوتے دیکھے ہوں گے، درجنوں انتخابی عذر داریاں دیکھی ہوں گی علاوہ ازیں اور کافی اعتراضات ہوئے ہوں گے مگر اپنے منہ سے یہ کسی نے اعتراف نہیں کیا کہ وہ غلط تھا۔
کاش! جو لوگ سیاست میں آنے کے خواہاں ہوں ، اُن کے لیے سیرت النبی کی کسی مستند کتاب کا امتحان پاس کرنا لازم قرار دے دیا جائے تاکہ اُنہیں پتہ چلے کہ صادق کون ہوتا ہے اور امین کون؟ اور لعنت اللہ علی الکاذبین بھی کتنی بڑی پھٹکار! ظاہر ہے کہ یہ کام آئین میں ترمیم کئے بغیر نہیں ہو سکتا۔ نیتوں کا حال اللہ جانتا ہے لیکن آئین میں امین و صادق کی شرط داخل کرنے والا بھی اتنا ہی امین و صادق تھا، جتنے کم و بیش ہم سب لوگ ہیں۔ جب تک وطن عزیز کی تعمیرنو کی بنیاد سچائی، صدق اور امانت پر نہیں رکھیں گے۔ یہیں کھڑے رہیں گے جہاں کھڑے ہیں۔ اگر چور، ڈاکو اور لٹیرے پھانسی بھی چڑھ جائیں ۔ ان کی نسلوں کا وہ حال کر دیا جائے جو بنو عباس نے بنوامیہ کے ساتھ کیا تھا اور بیرونی بنکوں میں جمع پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر بھی واپس آ جائیں۔ جب تک جھوٹ، دغا بازی، فریب کاری، نہیں چھوڑیں گے شب و روز نہیں بدلیں گے ہماری حالت نہیں بدلے گی۔ اگرچہ سچائی کی قوت کی مثال چودہ سو سال پرانے ایک واقعہ سے دی گئی ہے۔ مگر ابھی ستر اسی سال بھی نہیں گزرے کہ ایک صادق و امین نے بغیر جنگ کئے بے پناہ وسائل اور لشکر جرار رکھنے والوں کو فاش شکست دے کر مسلمانانِ برصغیر کے لئے علیحدہ وطن حاصل کر لیا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024