جنوبی افریقہ کی ایک یونیورسٹی کے دروازے پر ایک کتبہ پر یہ تحریر آویزاں ہے۔’’کسی قوم کو تباہ کرنے کے لیے ایٹم بم اور دور تک مار کرنے والے میزائل کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے نظام تعلیم کا معیار گرا دو‘ طلبہ و طالبات کو امتحانات میں نقل کی اجازت دے دو ‘ وہ قوم خود تباہ ہوجائے گی ۔اس ناکارہ نظام تعلیم سے فارغ التحصیل ہوکر نکلنے والے ڈاکٹروں کے ہاتھوں مریض مرتے رہیں گے ‘ انجینئر کے ہاتھوں عمارتیں تباہ ہوتی رہیں گی ‘ معیشت دانوں کے ہاتھوں مالی وسائل ضائع ہوتے رہیں گے ‘ مذہبی رہنمائوں کے ہاتھ انسانیت تباہ ہوتی رہے گی ‘ ججز کے ہاتھوں انصاف کا قتل ہوتا رہے گا ۔اس لیے یہ کہاجاتاہے کہ نظام تعلیم کی تباہی پوری قوم کی تباہی قرار پاتی ہے ۔ "جہاں تک یونیورسٹی کے دروازے پر آویزاں اس تحریر کی حقانیت اور سچائی کا تعلق ہے یہ باتیں ہزار فیصد درست ہیں اگر اس تناظر میں ہم پاکستانی قوم کی تباہ حالی اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں مسلسل گراوٹ کا جائزہ لیں تو بات سمجھ آ جاتی ہے کہ ہمارا نظام تعلیم ہی اس معاشی گراوٹ اور ذہنی پستی کا ذمہ دار ہے ۔پنجاب ہو یا کوئی صوبہ ہر جگہ امتحانات کے دنوں میں نقل مافیا ایسے پنجے جمائے کھڑا نظر آتاہے کہ خواہش کے باوجود قابو نہیں پایا جاسکتا ۔چند ماہ پہلے سند ھ میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات کے دوران کئی مضامین کے پرچے پہلے ہی آئو ٹ ہونے کی اطلاعات اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں ۔ جب ایم ایم بی ایس کاامتحان ہوتا ہے تو آدھے سے زیادہ ڈاکٹر بننے والے لوگ نقل مار کر امتحان پاس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاتھوں روزانہ انسانی اموات کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ اگر آج پاکستان انتظامی اور حکومتی سطح پر بدترین نااہلیت کا شکار ہے تو اس کی وجہ نظام تعلیم کی ناکامی ‘ نقل کی بہتات اور جعلی ڈگریاں ہیں ۔نقل مارکر پاس ہونے والے ڈاکٹروں ‘ سیاست دانوں اور انتظامی افسروں کا جو حال ہے وہی حال ہمارے انجینئرز کا ہے ‘ ہمارے تعلیمی اداروں کا فارغ التحصیل گرایجویٹ انگلش اور اردو میں نوکری کی درخواست بھی نہیں لکھ سکتا۔ جتنے بھی سرکاری افسر بڑے بڑے عہدوں پر فائز نظر آتے ہیں ان کے پاس یا تو تگڑی سفارش ہوتی ہے یا رشوت کا سہار
ا ۔ معیشت کی بدحالی بھی ایسے ہی نااہل معیشت دانوں کی ذہانت کی عکاس ہے۔ اس عبارت میں یہ بھی لکھاہے کہ مذہبی رہنمائوں کے ہاتھ انسانیت دم توڑتی رہے گی۔اس کی بدترین شکل پاکستانی معاشرے میں ہر جگہ اور ہر مقام پر دیکھی جاسکتی ہے ۔ ہمارے وہ مذہبی رہنما جنہیں عوام ووٹ دینا پسند نہیں کرتے وہ ملین مارچ کی دھمکیاں دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔یہ مذہبی رہنمائوں کی ناکامی ہی تو ہے کہ ہم آخرت کے خوف سے بے بہرہ ہوکر اس قدر گناہوں کی دلدل میں گرتے‘ اخلاقی پستی اور ملاوٹ کے عادی ہوچکے ہیں کہ یہاں پانی سمیت کوئی بھی چیز خالص نہیں ملتی ۔ سرخ مرچوں میں اینٹوں کا برادہ ڈالا جاتاہے ‘ دودھ کے نام زہریلا کیمیکل فروخت کیاجارہا ہے ‘دانستہ سیوریج اور کیمیکل ملے پانی میں سبزیاں اگاکر انسانی معدوں کو برباد کیاجارہاہے ‘ یہاں خربوزوں کو میٹھا کرنے کے لیے سکرین کے انجکشن لگائے جاتے ہیں ‘ کٹے ہوئے تربوز کو فروخت کرنے کے لیے مصنوعی سرخ رنگ کیاجاتا ہے ‘ انسانی چربی کی پگھلا کر کوکنگ آئل بنایا اور ہوٹلوں میںاستعمال بھی کیاجاتاہے ‘ شاید ہی کسی بیکری میں گندے انڈے اور حفظان صحت کا خیال رکھاجاتاہو ‘‘میڈیکل سٹورز پر فروخت ہونے والی کسی دوائی کے بارے میں یقین سے نہیں کہاجاسکتا کہ وہ خالص ہے‘ڈاکٹر انسانیت کو بھول کر پیسہ کمانے والی مشین بن چکے ہیں ۔نیا پاکستان ہو یاپرانا یہاں ہر وہ برائی ‘ ملاوٹ ‘ کرپشن ‘ رشوت ستانی ‘ نقل ستانی ‘ جعلی ڈگریوں ‘کا روبار عروج پر ہے تو یہ معاشرہ کیسے ایک اصلاحی معاشرہ بن سکتا ہے پاکستان کے سرکردہ لوگ یاتونااہل ہیں یا کرپٹ ہیںدیانت دار لوگ دور دور تک دکھائی نہیںدیتے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024