مُلّا عمر نے ایک عرصہ تک تحریک طالبان کی قیادت کی۔ اس دوران اسے تقریباً چھ سال تک افغانستان میں حکمرانی کا ایک دور بھی نصیب ہوا۔ امریکی ٹی وی چینلز پر یہ جملہ کہا جاتا تھا کہ ایک دجال مسیحا کے روپ میں افغانستان پہنچ گیا ہے۔ یاد رہے کہ روسی فوجوں سے لڑتے ہوئے ملّا عمر کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔ کچھ سالوں سے مُلّا عمر طالبانی منظر سے غائب تھا۔ پھر اچانک یہ دھماکہ خیز خبر آئی کہ وہ ایک مدت سے اس دنیا میں نہیں ہے۔ شروع شروع میں تو طالبان ترجمان نے تردیدی بیان جاری کیے لیکن جب کچھ طالبان لیڈروں نے یہ مطالبہ کیا کہ اگر مُلّا عمر زندہ روپوش ہے تو الیکٹرانک میڈیا کے ذرائع سے ہمیں اس کی آواز سنا دی جائے تاکہ ہم اس سے رہنمائی حاصل کر سکیں۔ اس مطالبے نے مُلّا عمر کی موت کا راز کھول دیا۔ موت کا راز کیا کھلا، مُلّا عمر کی شخصیت اور پُراسرار موت کے بارے میں رنگا رنگ داستانیں منظر عام پر آنے لگیں۔ مُلّا عمر کے مقام مرگ کے بارے میں متضاد بیان سامنے آئے، افغان انٹیلی جنس سروس کے ترجمان عبدالحسیب نے بی بی سی کو بتایا کہ مُلّا عمر کو سرطان کا مرض لاحق تھا اور وہ دو سال قبل کراچی کے ایک ہسپتال میں فوت ہو گیا تھا۔ آغا خان ہسپتال کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ مُلّا عمر کا علاج ہمارے ہسپتال میں کبھی نہیں کیا گیا۔ اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ دو ہفتے کی علالت کے بعد مُلّا عمر افغانستان میں فوت ہوا لیکن طالبان میں گروپ بندی کے پیش نظر اس خبر کو خفیہ رکھا گیا اور اس حقیقت کو چھپانے کے لیے باقاعدہ فتویٰ لیا گیا۔ تحریک طالبان افغانستان کی سپریم کونسل کے اعلامیہ کے مطابق مُلّا عمر کا انتقال شدید بیماری کے سبب ہوا۔ وہ تمام عرصہ افغانستان میں رہے اور کبھی پاکستان نہیں گئے۔ ایک خبر یہ بھی سامنے آئی کہ پاکستان میں انتقال کے بعد ملا عمر کی نعش کو افغانستان کے ایک سرحدی گاﺅں میں منتقل کیا گیا، جہاں اس کی قبر موجود ہے۔ ایک فارسی ویب سائٹ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ طالبان میں بغاوت کے بعد مُلّا عمر کو مخالف دھڑے کے رہنماﺅں ’ملا اختر، محمد منصور اور گل آغا نے قتل کروایا ہے۔ افغان اسلامک موومنٹ فدائی محاذ نے اس سال یکم اگست کو خبر دی تھی کہ قطر میں طالبان کا دفتر کھولنے کے مسئلہ پر ملا اختر منصور اور مُلّا عمر کے درمیان شدید بحث ہوئی تھی۔ اس کے بعد ملا اختر نے مُلّا عمر کی ادویات میں زہر ملا کر اسے سفر آخرت پر روانہ کر دیا۔ افغان امور کے نامور تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی نے انکشاف کیا ہے کہ وہ پہلے اور آخری صحافی ہیں جنہوں نے مُلّا عمر سے ملاقات کی اور انٹرویو ریکارڈ کیا۔ گزشتہ عید پر مُلّا عمر کا جو پیغام نشر کیا گیا وہ مُلّا عمر کی آواز میں نہیں تھا۔ کچھ طالبان کا دعویٰ ہے کہ مُلّا عمر کا انتقال 23 اپریل 2013ءکو ہو گیا تھا جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ سانحہ 19جولائی 2013ءکو رونما ہوا۔ رحیم اللہ یوسف زئی کے مطابق اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد القاعدہ کے دوسرے رہنماﺅں کے ساتھ ملا عمر صوبہ بلوچستان میں آ گیا تھا۔ روس میں لڑائی کے دوران اس کی ایک آنکھ مجروح ہو گئی تھی اس کا علاج بھی کوئٹہ کے آئی سی آر سی ہسپتال میں کیا گیا تھا۔ ملا عمر کا انتقال پاکستان ہی میں ہوا تھا البتہ ان کی قبر افغان صوبہ زابل میں ہے۔ یوسف زئی نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ غیر تصدیق شدہ خبر کے مطابق مُلّا عمر کے اہل خاندان کے اصرار پر قبر کشائی کی گئی تاکہ دیکھا جائے کہ قبر میں واقعی مُلّا عمر کی نعش ہے یا کسی اور کی ہے۔ قبر کشائی پر دیکھا گیا کہ مُلّا عمر کے سر اور سینے پر گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔
جماعت الدعوة کے امیر حافظ محمد سعید کے مطابق مُلّا عمر کی وفات سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو صدمہ پہنچا ہے۔ انہوں نے مُلّا عمر کی غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھائی اور اعلان کیا کہ مُلّا عمر لاکھوں شہدا کے وارث اور امت مسلمہ کا عظیم سرمایہ تھے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور مولانا فضل الرحمن نے مُلّا عمر کی موت کو طالبان کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا اور یقین ظاہر کیا کہ ان کی تنظیم اپنی صفوں میں انتشار پیدا نہیں ہونے دے گی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود مُلّا عمر کے خاندان نے عمر کے بیٹے ملا اختر تحریک طالبان کا سربراہ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ طالبان کے روحانی استاد اور جمعیت علمائے اسلام کے ایک دھڑے کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے مُلّا عمر کو محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی، ٹیپو سلطان اور سید احمد شہید کے پائے کا رہنما قرار دیا اور یہ فتویٰ جاری کیا کہ اگر مُلّا عمر نہ ہوتا تو یہودیوں اور عیسائیوں کی سازشیں پاکستان اور افغانستان کو صفحہ ہستی سے مٹا چکی ہوتیں۔ حضرت مولانا کو یہ بیان دیتے ہوئے پاکستان قوم کی حب الوطنی، پاکستانی افواج کی دنیا بھر میں تسلیم کی جانے والی شجاعت، تربیت، کامیابیاں اور قربانیاں دکھائی نہیں دیں اور یہ بھی احساس نہیں ہوا کہ طالبان کی دھماکہ انگیز دہشت گردی ہزاروں پاکستانیوں کا خون پی چکی ہے۔ ان بیانات اور حقائق نے مُلّا عمر کی شخصیت اور موت کو ایک معمہ بنا کر رکھ دیا ہے۔
حیراں ہیں دل کو روئیں کہ پیٹیں جگر کو ہم