آج میں سپہ سالارِ اعلیٰ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ہٹائے جانے کی خبروں اور اس پر بہادر اور جینوئن سیاستدان وزیر داخلہ چودھری نثار کے قومی ردعمل کے حوالے سے لکھنا چاہتا ہوں مگر یہ بھی چاہتا ہوں کہ اس پر زیادہ بات نہیں ہونا چاہئے۔ پہلے ایک آرمی چیف جنرل مشرف کو ہٹانے کی ناکام کوشش کے انجام کو ہر شخص جانتا ہے۔ میرا خیال ہے وزیراعظم نواز شریف بھی جانتے ہوں گے۔ جنرل مشرف کے مقابلے میں ملک کی ہردلعزیز عسکری شخصیت جنرل راحیل شریف کے لئے ایسی خواہش کو بھی لوگ قبول نہیں کریں گے۔ شکر ہے کہ چودھری نثار بھی ہیں جنہوں نے ان افواہوں کا بروقت نوٹس لیا ہے۔ چودھری صاحب سیاسی شخصیت کے طور پر بہت پسند کئے جاتے ہیں۔ ان کی طرف سے بیانات لوگوں کے تڑپتے دل کی ترجمانی ہیں۔ میں اس پر بات کروں گا مگر پہلے لاہور میں وفاقی کالونی کی حالت زار بلکہ حالت زار و قطار پر کچھ دردمندانہ بات۔
مجھے برادر کالم نگار یٰسین وٹو نے آج صبح جب یہ کہا کہ میں گندگی اور گندے پانی کی فراوانی کی وجہ سے مسجد تک نہیں جا سکتا تو مجھے بہت دکھ ہوا۔ ٹوٹے پھوٹے گٹروں میں سیلاب آیا ہوا ہے۔ وفاقی کالونی کے سیلاب زدگان کی مدد ہونا چاہئے۔ آج ان کا ایک بہت موثر اور جاندار کالم بھی شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہی سب کہانی سنا رہا ہے۔ ”وفاقی کالونی کی حالت زار وفاق جیسی ہے“ یہ بہت زبردست کالم ہے تو پھر نجانے مجھے کالم لکھنے کے لئے کیوں کہا گیا ہے۔ یہ اس بے بسی کا شدید ترین احساس ہے جو ایک دل والے شخص وٹو صاحب کے دل میں ہے۔ آپ وٹو صاحب کا کالم پڑھیں اور افسردہ ہو جائیں۔ یہ محلات میں رہنے والے وڈیروں اور وزیروں کے لئے ایک ٹوٹا آئینہ ہے۔ آئینے کی ہر کرچی ایک آئینہ ہوتی ہے۔ اس حلقے سے برادرم محمودالرشید اور برادرم شفقت محمود جیتے تھے وہ الیکشن کے بعد ایک مرتبہ وہاں نہیں گئے کیایہی انصاف ہے۔ تحریک انصاف والے بتائیں۔ حکومتی پارٹی کے موثر اور دوست آدمی خواجہ احمد حسان وفاقی کالونی والوں کو لفٹ نہیں کراتے کہ انہوں نے ان کو ووٹ نہ دیا تھا۔ اس روئیے کے لئے اگلی دفعہ بھی ووٹ ان کو نہ ملے تو کیا ہو گا۔ علاقے کے ایس ای سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ وفاقی کالونی کو وفاق کے لئے بدنامی سے بچانا آپ کا فرض ہے۔ کیا اس کے لئے وزیراعظم نواز شریف سے بات کرنا پڑے گی۔
اب پھر وفاق کی ایک عظیم علامت اور مقبول ترین انسان عسکری لیڈر سپہ سالار اعلیٰ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی بات کرتے ہیں۔ میں ایک درویش آدمی ہوں۔ آج تک کسی بڑی سرکاری شخصیت سے میں نے تعلق نہیں رکھا۔ جنرل راحیل شریف سے بھی صرف ان دیکھی محبت کا تعلق ہے۔ آج تک کوئی جرنیل لوگوں میں اتنا محبوب نہیں ہوا بلکہ کوئی آرمی چیف لوگوں کے دلوں تک راہ نہیں پا سکا۔ قوم کا ہر آدمی ہر سیاستدان ہر کوئی جنرل راحیل کا نام محبت سے لیتا ہے۔ ان کے ہر عمل کو سراہتا ہے۔ ان کے ہر اقدام ہر سرگرمی پر عقیدت کی نظر رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسلمان کا عمل عبادت ہے عبادت عمل نہیں ہے۔
پریشانی یہ ہے کہ ان کے ہٹائے جانے کی خبر کہاں سے آئی۔ کوئی شخص یہ خبر نہیں اڑا سکتا وزیر داخلہ کو یہ تحقیقات بھی کرنا چاہئے کہ یہ ناپسندیدہ خبر آئی کہاں سے ہے۔ وہ جو پاک فوج اور جرنیلوں کے خلاف بولتا رہتا ہے تو اسے یہ خبر پھیلانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کی خواہشوں اور عزائم سے کون واقف نہیں ہے۔ یہ خبرکسی اور حلقے سے چلائی گئی ہے۔
وہ چند افسر کون ہیں جن کا نام نہیں لیا جا رہا ہے کہ وہ جنرل راحیل شریف کو ہٹانے کے لئے کچھ نہیں کر سکتے کوئی کچھ نہیں کر سکتا مگر وہ جو کر سکتے ہیں تو انہوں نے کر دیا ہے۔ یہ فوجی افسر ہیں یا سول افسر ہیں اور یا کوئی ”سیاسی افسر“ ہیں اس بات کا اس ”سیاست“ سے کیا تعلق ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہے۔ کیا اس کے لئے آرمی چیف اور چیف ایگزیکٹو کی مسلسل ملاقاتیں کافی نہیں؟ صفحے کو ورقہ بھی کہا جاتا ہے دیکھنا ہے کہ پچھلی طرف کیا لکھا ہوا مگر اب یہ ورقہ فرسودہ ہو چکا ہے۔ پھٹ چکا ہے۔ مجھے نامور شاعرہ امرتا پریتم کا مشہور مصرعہ یاد آتا ہے۔
توں اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
ہمارے نام نہاد ”بڑوں“ نے کتاب عشق کبھی کھول کر نہیں دیکھی ہمیں بے عشق حکمرانوں افسروں سیاستدانوں دولتمندوں اور کرپٹ لوگوں نے مار مکایا ہے۔ بڑی مدت کے بعد جنرل راحیل شریف کی شکل میں ایک صاحب عشق آدمی میسر آیا ہے تو اس کی قدر کرنا چاہئے۔ اس کے لئے چودھری نثار کی محبت یعنی عشق بہت کافی ہے۔ ملاقاتیں دو تین ہی چودھری صاحب سے ہوئی ہیں مگر میں ایک سیاستدان اور حکمران کے طور پر ان کا طرزعمل ردعمل اور سیاسی عمل دیکھ رہا ہوں۔ وہ مجھے پسند آئے ہیں ورنہ یہاں بہت وزیر داخلہ گزرے ہیں۔ ایک وزیر داخلہ رحمان ملک بھی تھا کہ اس کے لئے کوئی بری بات کرنے کو بھی جی نہیں کرتا۔ اللہ ملک صاحب کو کسی پازیٹو راہ پر لائے یعنی راہ راست پر لائے اور یہ ممکن نہیں ہے؟
چودھری نثار کی اس بات کی مکمل تائید ہر شخص کرتا ہے۔ جنرل راحیل کو قوم حکومت اور فوج کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔ جنرل راحیل نے ڈیڑھ سال میں ہر پاکستانی کا دل جیت لیا ہے۔ عزت کمائی ہے۔ کون سپہ سالار ہے جو اگلے خطرناک مورچوں پر اپنے سپاہیوں کے ساتھ چاند رات اور عید مناتا ہے۔ وہ خود ایک بہادر سپاہی ہے۔ فوج اپنے سپہ سالار پر جان دیتی ہے۔ ہر جوان ان کے ساتھ گلے ملنے کو بے تاب ہوتا ہے۔ یہ بے تابیاں جنرل صاحب کو تب و تاب جاودانہ دیتی ہیں۔
چودھری نثار کے اس ولولہ انگیز بیان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وزیراعظم کے قافلے میں کوئی گاڑی غلطی سے داخل ہو گئی تھی۔ وزیراعظم کا قافلہ پوری قوم کا قافلہ ہے۔ میرا بھی قافلہ ہے۔ ایک عام پاکستانی کی گاڑی ان کے قافلے کا حصہ کیوں نہیں بن سکتی؟ یہ کوئی خبر نہیں ہے۔ یہ بھی خبر نہیں ہے کہ جنرل راحیل شریف کو ہٹانے کی سازش کی جا رہی ہے؟ البتہ یہ خبر ہے کہ لاہور کی وفاقی کالونی کی حالت زار وفاق جیسی ہے۔ یہ بھی خبر ہے کہ چودھری نثار نے کہا ہے میں دھرنے کے لئے پوری کتاب لکھ سکتا ہوں۔ البتہ گندے کپڑے گھر کے باہر نہیں دھوئے جاتے مگر میری گزارش چودھری صاحب سے ہے کہ سیاسی واش روم میں صاف شفاف کپڑے بھی دھوئے جائیں گے تو ان میں سے بھی بہت گندگی نکلے گی!