یہ بیس برس پہلے کی بات ہے کہ جولائی 1995ء میں اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو نے اپنے وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی کو افغانستان میں مصالحتی مشن پر بھیجا۔ یہ وہ دور تھا جبکہ افغانستان کے کئی صوبوں پر طالبان نے قبضہ کر لیا تھا اور وہ صوبے جو شمالی اتحاد کے پاس تھے طالبان ان کو بھی چھیننے کی کوششیں کر رہے تھے۔ سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد امریکہ افغانستان کو چھوڑ کر چلا گیا تھا مجاہدین کے ان گروپوں نے جنہوں نے سویت فوجوں کے خلاف مل کر جہاد کیا تھا وہ کابل پر قبضے کے لئے ایک دوسرے سے برسر پیکار تھے، افغانستان خانہ جنگی کا شکار تھا۔ امریکہ نے وزیراعظم بینظیر بھٹو کو کہا تھا کہ وہ افغانستان میں طالبان اور ان کے مخالف دھڑوں میں جاری خانہ جنگی کو ختم کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ بینظیر بھٹو نے اپنے وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی کو افغان دھڑوں میں مصالحت کے لئے افغانستان بھیجا تھا اس وفد میں وزیر خارجہ کے علاوہ وزارت خارجہ کے حکام‘ شاہد رفیع جو اس وقت وزارت خارجہ میں ڈائریکٹر جنرل میڈیا کوآرڈینیشن تھے اس وفد میں شامل تھے ممتاز صحافی اور افغان امور کے ماہر رحیم اﷲ یوسف زئی‘ اس وقت کے روزنامہ نیشن سے وابستہ سینئر صحافی فہد حسین اور راقم اخبار نویسوں کے اس گروپ میں شامل تھے جو اس مصالحتی مشن کے ساتھ افغانستان گیا تھا۔
پاک فضائیہ کا ایک خصوصی طیارہ جس میں اینٹی میزائل آلات نصب تھے ہمیں لے کر کابل گیا۔ کابل میں اس وقت پروفیسر برہان الدین ربانی صدر تھے، احمد شاہ مسعود پروفیسر برہان الدین ربانی کے ساتھ تھے۔ ربانی صاحب اس فارمولے کے تحت افغانستان کے صدر بنے تھے جو انتقال اقتدار کے لئے پاکستان میں طے ہوا تھا، اس فارمولے کے تحت سب سے پہلے صبغت اﷲ مجددی افغانستان کے صدر بنے تھے، مجددی صاحب کے صدر بننے پر حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار پاکستان سے سخت ناراض تھے۔ کابل میں پروفیسر مجددی کی تقریب حلف برداری میں یہ راقم بطور صحافی شریک تھا یہ تقریب حلف برداری یادگار تھی اس میں وزیراعظم نوازشریف کے علاوہ اس وقت کے فوج کے سربراہ آصف نواز جنجوعہ بھی شریک تھے۔ کابل کا اس وقت کا ماحول بڑا کشیدہ تھا اس ماحول کی تفصیلات میں جانے کا یہ موقع نہیں۔
بات ہو رہی تھی سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی کی قیادت میں جانے والے مصالحتی مشن کی، جب وفد کابل پہنچا تو سردار آصف احمد علی کی ناشتے پر کابل کے صدارتی محل میں احمد شاہ مسعود سے ملاقات ہوئی ہم صدارتی محل میں ناشتہ کے لئے گئے تھے، ہمارا قیام رات کو کابل کے انٹر کانٹیننٹل ہوٹل میں تھا جس کے در و دیوار میزائلوں اور گولیوں سے چھلنی تھے، اس رات احمد شاہ مسعود کے آدمیوں نے پاک فضائیہ کے خصوصی طیارے کے پائلٹوں اور انجینئرز کو سیکیورٹی رسک قرار دے کر حراست میں لیا تھا یہ ایک اور دلچسپ کہانی ہے جس کا اس وقت ذکر مناسب نہیں، احمد شاہ مسعود سے ناشتے پر ملاقات کے بعد جب پاکستانی وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی سے قندہار میں طالبان کے راہنما ملا عمر سے ملاقات کے لئے ارادہ ظاہر کیا تو احمد شاہ مسعود نے سردار آصف احمد علی سے کہا کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر کیسے ملا عمر سے ملاقات کر سکتے ہیں جس پر سردار آصف احمد علی نے احمد شاہ مسعود کو بتایا کہ وہ پاکستان کی طرف سے طالبان اور ان کے درمیان مصالحت کرانے کے لئے آئے ہیں وہ کسی اور مقصد کے لئے افغانستان نہیں آئے۔ بہرحال احمد شاہ مسعود کی ناراضگی کے باوجود ہم کابل سے قندہار پہنچے۔
قندہار ائر پورٹ پر طالبان کے راہنماؤں نے پاکستانی وزیر خارجہ اور ان کے وفد کا استقبال کیا۔ قندہار ائر پورٹ پر ایک روسی کارگو طیارہ کھڑا تھا اس طیارے کو مسلح طالبان نے اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔ رحیم اﷲ یوسف زئی‘ فہد حسین اور راقم نے طیارے کو گھیرے میں لینے والے طالبان سے پوچھا کہ انہوں نے روسی طیارے کو کیوں گھیرے میں لیا ہوا ہے تو ان میں سے سینئر گارڈ نے بتایا کہ یہ طیارہ شمالی اتحاد کے لئے اسلحہ لے کر کابل جا رہا تھا جسے ہم نے یہاں اتار لیا ہے، ہماری روسی پائلٹوں سے بات چیت کرائی گئی ان پائلٹوں سے ہماری بات چیت کی سٹوری اس وقت کے اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔
قندہار ائر پورٹ سے ہمیں ڈبل کیبن گاڑیوں میں بٹھا کر قندھار کے گورنر ہاؤس لے جایا گیا جہاں ملا عمر کے ساتھ ہمارے وزیر خارجہ کی ملاقات ہونا تھی۔ یہ انتہائی ٹوٹی پھوٹی سڑک تھی جس کے ذریعہ ہم قندہار کے گورنر ہاؤس پہنچے گورنر ہاؤس میں سردار آصف احمد علی اور ان کے سرکاری وفد نے ملا عمر سے بات چیت شروع کر دی یہ بات چیت دو گھنٹے سے زیادہ تک جاری رہی جس کے بعد گورنر ہاؤس میں ہمارے وفد کو ملا عمر نے ایک پُرتکلف لنچ دیا، یہ لنچ زمین پر بچھے ایک قالین پر وسیع دستر خوان پر دیا گیا‘ لنچ میں کابلی پلاؤ‘ افغان تکہ اور کباب‘ اور پاکستانی کھانے شامل تھے ملا عمر کے پیچھے ان کے محافظ لنچ کے دوران کھڑے رہے۔ اس لنچ پر ملا عمر نے کوئی گفتگو ایسی نہیں کی جس پر خبر بن سکتی تھی۔ یہ سطور لکھتے ہوئے میں نے رحیم اﷲ یوسف زئی کو پشاور میں فون کر کے پوچھا کہ کیا انہیں یاد ہے کہ ملا عمر نے کوئی گفتگو کی تھی تو انہوں نے تصدیق کی کہ ملا عمر نے علیک سلیک کے علاوہ کوئی اہم گفتگو نہیں کی تھی۔ لنچ کے دوران ہمارے وفد میں شامل پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک کیمرہ مین اورنگ زیب خان نے جو میرے ساتھ بیٹھے تھے اپنے ٹی وی کیمرے سے ملا عمر کی خفیہ طور پر تصویر لینے کی کوشش کی تو ملا عمر کے محافظ ہمارے قریب آ گئے اور انہوں نے اورنگزیب کو دھمکی دی کہ اگر اس نے تصویر بنانے کی کوشش کی تو اسے کمرے سے باہر نکال دیا جائے گا جس کے بعد اورنگزیب نے کیمرے کو ہاتھ نہیں لگایا۔ لنچ کے خاتمے کے بعد ہم کمرے سے باہر آ گئے، ملا عمر اور ان کے ساتھیوں نے ہمیں الوداع کیا اس دوران ملا عمر کے محافظ عقابی نگاہوں سے دیکھتے رہے کہ کوئی ملا عمر کی تصویر تو نہیں اتار رہا۔ گورنر ہاؤس سے ہم قندھار ائر پورٹ پرگئے ہماری اگلی منزل ہرات تھی جہاں اس رات ہم کمانڈر اسماعیل خان کے مہمان تھے یہ الگ بات ہے کہ اس کے ٹھیک ایک ماہ بعد اگست 1995ء میں طالبان نے اسماعیل خان سے ہرات چھین لیا تھا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38