بدھ ‘ 19 شوال ‘ 1436ھ ‘ 5 ؍ اگست 2015ء
رویت ہلال کمیٹی کے چاند دیکھنے کا طریقہ شرعی عدالت میں چیلنج۔
جن لوگوں کے پاس کرنے کو کوئی اور کام نہ ہو وہ ایسے عجیب وغریب قسم کے کاموں میں ہاتھ ڈالتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد تو کچھ ہوتا نہیں بس وقت ضائع کرنے کیلئے یہ شغل اختیار کیا جاتا ہے۔ رویت ہلال کمیٹی چاند دیکھنے کیلئے جو طریقہ اختیار کرتی ہے اس میں آنکھوں کے علاوہ دوربین سے بھی چاند کو تلاش کیا جاتا ہے بلکہ سچ کہیں تو منتیں اور ترلے کرکے رات 9 یا 10 بجے تک چندا ماموں کو مکھڑا دکھانے کیلئے پورے ملک میں ’’ایک بار آ جا جھلک دکھلا جا‘‘ کی تال پر سر ملانے کی کوششیں ہوتی ہیں تب کہیں جا کر چندا ماموں اپنا دیدار کراتے ہیں۔ اب معلوم نہیں طریقہ کار چیلنج کرنے والے اورکون سے شرعی طریقے سے چاند تلاش کرانا چاہتے ہیں۔ تیسرا طریقہ کیلنڈر کے مطابق عید منانا اور رمضان کا آغاز کرنا تو نہیںہے۔ اور پھر صرف رویت ہلال کمیٹی کے طریقہ کو ہی کیوں چیلنج کیاگیا۔ کیا مولانا پوپلزئی کی طریقہ واردات سے یہ حضرت متفق ہیں جو اپنی مرضی سے کہیں بھی چاند چڑھا کر صوبہ خیبرپی کے میں دو عیدیں کرواتے ہیں اور آج تک انہوں نے اپنی روش نہیں بدلی اصل چاند بعد میں نظر آیا ہو۔ وہ ہمیشہ اپنے چاند کو دیکھ کر عید یا روزوں کا اعلان کرتے ہیں۔
انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ انکے طریقہ کار کو بھی چیلنج کیا جائے تاکہ ایک اصل حقیقی شرعی طریقہ چاند دیکھنے کا دریافت ہو اور ملک میں دو عیدوں کا رواج ختم ہو۔
٭…٭…٭…٭
آزاد کشمیر حکومت نے ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے دونوں وزراء کو فارغ کر دیا۔
اسے کہتے ہیں اثر بد یا برے اثرات۔ کرے کوئی اور بھرے کوئی۔ عالم غنودگی میں الطاف بھائی بیرون ملک بیٹھ کر اناپ شناپ بول دیتے ہیں۔ اندرون ملک فاروق ستار اور اس قبیل کے دوسرے رہنما بعدازاں اپنے رہنما کے ارشادات عالیہ کی تشریح من پسند الفاظ سے کرکے انکے زور بیان کو کم کرنے اور انداز بیاں کو بدلنے کی بھرپور سعی کرتے ہیں۔ غالب خستہ حال نے شاید ایسے ہی کسی موقع پر کہا تھا … ؎
بَک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
اب غالب کی بدقسمتی یہ رہی کہ انکے کلام کی تشریح کرنے والے وہ بھی موقع برمحل اور من پسند انداز میں جس سے حکمران اور عوام دونوں راضی ہوں ان کو دستیاب نہیں تھے۔ جب کہ الطاف بھائی خوش قسمت ہیں کہ انہیں مفسرین بیان ہمہ وقت دستیاب ہیں۔ ان کا کام ہی شب کی باتوں کو سحر کے اجالے میں بدلتے رہنا ہے۔ مگر کثرت تشریح سے ان کی باتوں میں وزن نہیں رہا اور لوگ الطاف بھائی کے حقیقی بیان پر ہی زور دینے لگے ہیں۔
انسان تمام باریکیوں اور اندرون خانہ چالاکیوں کے باوجود اب کے بار بھیا الطاف کے جارحانہ یا الطافانہ بیان پر عوام، فوج اور حکومت یکجا ہو گئے ہیں۔
اب جارحانہ حملے کرنے والوں کو اپنی پڑ گئی ہے۔ آخر کب تک کوئی دوسرے کی سزا بھگتے۔ لے دے کر اب صرف آزاد کشمیر میں ایم کیو ایم کے 2 وزراء حکومت میں بیٹھ کر مال پانی بنا رہے تھے۔ ان کی بھی شامت آ گئی اور بھیا الطاف کے ملک دشمن بیان کے بعد آزاد کشمیر کی حکومت نے دونوں وزراء کو حکومت سے باہرنکال لیا ہے۔ باقی صوبوں میں ویسے ہی ایم کیو ایم اپوزیشن میں ہے۔ ورنہ وہاں بھی یہی کچھ ہوتا۔ اس جرات مندانہ فیصلے پر اب آزاد کشمیر حکومت دادوتحسین کے ڈونگرے سمیٹ رہی ہے۔
معلوم نہیں یہ فیصلہ واقعی آزاد کشمیر حکومت نے جرات دکھاتے ہوئے عوام کے امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا ہے یا وہاں الیکشن کی آمد آمد ہے اور پیپلز پارٹی والوں نے اپنی گرتی ساکھ بچانے کے لئے یہ دائو کھیلا ہے۔ وجہ جو بھی ہو پیپلز پارٹی کی حکومت نے چال درست وقت پر چلی ہے۔
٭…٭…٭…٭
وزیراعظم کا سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں کا ایک روزہ دورہ۔
پنجاب کے بعد آجکل سیلاب سندھ کے حکمرانوں کو شرم سے پانی پانی کرنے کیلئے پورے زوروشور سے مصروف عمل ہے۔ وزیراعظم پاکستان بھی اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر سندھ آئے جہاں صوبائی وزیر ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی پوری کوشش کریں گے یعنی انہیں سیلاب پر بریفنگ دیں گے۔ مزہ آتا اگر وزیراعظم صاحب بند ٹھنڈے ٹھار اے سی والے کمروں میں بریفنگ لینے کی بجائے اور جہاز میں سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کی بجائے کسی عام گاڑی میں کہیں اور نہیں تو سکھر، نواب شاہ اور راجن پور ہی کا بائی روڈ چکر لگا لیتے۔ انہیں صوبے میں سندھ کے حقوق کے ترجمانوں اور علمبرداروں کی ساری معقول بروقت حفاظتی تیاریوں اور بندوبست کا اندازہ ہو جاتا اور عوام میںان کی بلے بلے تو ویسے بھی ہونی ہے۔ ورنہ یہ نمائشی کیمپوں میں خطاب پہلے بھی بہت لوگ کرکے جا چکے ہیں۔ اب وزیراعظم نے بھی کر لیا تو کیا ہوگا۔ اگرچہ یہ وقت سیاست کیش کرانے کا نہیں مگر اس میں حرج بھی کیا ہے کیونکہ صوبے کے اصل وارث تو اس وقت بیرون ملک بیٹھ کر اپنا غم غلط کر رہے ہیں اور زرداری صاحب نے پیپلزپارٹی کا اعلی سطحی اجلاس بھی بیرون ملک طلب کر لیا ہے۔ اندرون ملک خدا جانے اور عوام جانیں۔ اقبال نے شاید انہی جیسے قوم کے رہنمائوں کیلئے فرمایا تھا … ؎
’’یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا‘‘
جب انہیں عوام کے پاس ہونا چاہیے یہ سب باہر بیٹھ کر صوبہ چلا رہے ہیں۔ اعلی سطحی اجلاس بھی سیلاب کے لئے تو نہیں ہو سکتا شاید بلدیاتی الیکشن یا پھر رینجرز آپریشن کے حوالے سے کچھ معاملات طے کرنا ہوں تو علیحدہ بات ہے۔ ہمارے شاطر سیاست دانوں کا عوام سے رابطہ صرف الیکشن کے دنوں تک مخصوص ہو گیا ہے اور بے وقوف عوام اس چند روزہ رابطہ پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور اپنی قسمت کی باگ ڈور پھر انہی کے ہاتھوںمیں تھما دیتے ہیں جو ان کی بدحالی کے اصل ذمہ دار ہیں۔