لواحقین معاشرتی دبائو کے باعث قیمتی شہادتیں ضائع کر دیتے ہیں: سکالر اعجاز حسین

انسانی و سماجی رویوں کے ماہر پی ایچ ڈی سکالر اعجاز حسین نے کہا ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت، درندگی، فحاشی و عرفانی اور بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے روئیے کمسن اور نابالغ بچیوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات میں اضافے کا سبب ہیں۔ شیطان صفت درندہ نما انسان اپنی ہوس مٹانے کے لئے آسان ٹارگٹ کی تلاش میں ہوتے ہیں چونکہ نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کی نسبت معصوم بچیوں کو ورغلا کر اغوا کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے اس لئے گزشتہ برسوں میں ایسے واقعات میں تشویش ناک اضافہ ہوا ہے جس کی مدرجہ ذیل وجوہات ہیں۔
-1 پولیس کی مجرمانہ غفلت اور ایسے جرائم کو سنجیدہ نہ لینا بلکہ لواحقین کو اپنے ہی رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے گھر ڈھونڈنے کا مشورہ دینا۔
-2 یہ بات نہایت اہم ہے کہ ایسا واقعہ رونما ہونے کے بعد فرانزک شواہد، ڈی این اے ٹیسٹ اور دیگر میڈیکل رپورٹ ایک مخصوص عرصہ کے دوران ہی جانچ پڑتال کرنی چاہئیں تو کارآمد ہوتے ہیں اگر وہ عرصہ گزر جائے تو جو اکثرپولیس کی نااہلی سے ضائع ہو جاتا ہے تو کرائم سین سے ملنے والی شہادتیں اتنی موثر نہیں رہ جاتی جن کے ذریعے ملزم تک پہنچا جا سکے۔
-3 ماں باپ اور لواحقین کی غفلت جو کہ معاشرے کے دبائو اور دیگر کئی وجوہات کی بنا پر اپنی معصوم بچیوں کے ساتھ ہوئی زیادتی کو چھپانے کی کوشش میں قیمتی شہادتیں ضائع کر دیتے ہیں اور ملزم تک پہنچنا اور ان کو قرار واقعی سزا دلوانا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے ناممکن ہو جاتا ہے اور اصل ملزم پکڑا بھی جائے تو وہ شہادتیں نہ ہونے کی وجہ سے بری ہو جاتا ہے۔
حکومت نے تو صرف چائلڈ پروٹیکشن بیورو بنا کر یہ سمجھ لیا ہے کہ اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی مگر ’’رول آف لائ‘‘ کا ہمارے پورے سسٹم میں فقدان نظر آتا ہے ایسے کیسز کے لئے سپیشل پولیس یونٹ اور فوری سماعت کی عدالتیں بہت ضروری ہیں تاکہ بروقت کارروائی کرتے ہوئے ایسے سفاک درندوں کو ان کے انجام تک پہنچا کر معاشرے میں ایک مثال قائم کی جا سکے۔