کوڑے کے ڈھیروں پر مسلے ہوئے پھول
رانا گل نوازخاں
گذشتہ چند سالوں کے دوران ایسے روح فرسا واقعات بھی جیتے جاگتے معاشرے کا حصہ ہیں اور ایسے بدبخت لوگ بھی یہاں زندہ ہیں جو اپنا گناہ چھپانے کی خاطر پھول سے معصوم بچوں کو گندگی کے ڈھیروں اور دریائی بے رحم تندو تیز موجوں کے سپرد کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ،آئے روز ان واقعات سے حساس افراد کا کلیجہ دہلتا ہے جبکہ ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ظہور اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں بچیوں کو زندہ درگور کرکے معاشرے میں اپنی جھوٹی آن اور مکروہ چہرے کی دھاک بٹھائی جاتی ہے اور صدیاں گزرنے کے بعد معاشرے میں آج بھی ایسے قبیح اور مکروہ فعل کے حامل لوگ موجود ہیں جو اس سفاکانہ عمل کو پروان چڑھانے اور اسلامی شعائر سے بے بہرہ یہ لوگ آج بھی بیٹیوں کو باعث ندامت گردانتے ہوئے انہیں زندہ درگور کرنے میں اک لمحہ توقف نہیں رکھتے جبکہ زمانہ اس حال کو آن پہنچا ہے کہ نومولود بچیوں کا پیدا ہونا ہی ان کی سب سے بڑی خطا قراردی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ آئے روزکوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر زندہ یا مردہ حالت میں نوزائیدہ بچوں کی موجودگی کے واقعات بڑھ رہے ہیں جنہیںکفار مکہ کی طرف سے بچیوں کو پیدا ہوتے زندہ دفن کردئیے جانے سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا جبکہ ان کے احوال پر غور کرنے سے جو اسباب سامنے آتے ہیں ان میں سرفہرست جنسی بے راہروی اور عریانی و فحاشی کا پروان چڑھنا ہے ۔نہایت بدبخت ہیں وہ خواتین جو ناجائز اولادوں کو یوں گندگی کے ڈھیروں پر پھینکنے کی صورت میں ایک طرف زنا جیسے قبیح فعل تو دوسری طرف انسانی جان کے قتل ناحق کے ناقابل معافی جرم کی مرتکب ہوتی ہیں جبکہ اس بارے میں انتظامیہ کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ چند روز قبل سادھوکے راجباہ میں تیرتی دونومولودبچوں کی نعشوں میں ایک کو تحویل میں لیکر پولیس کو اطلاع دی گئی تو انہوں نے اپنی فرض شناسی اور انسانیت نوازی کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے اطلاع دہندہ کو،، قیمتی مشورہ،، دیا کہ اس جھنجھٹ میں پڑنے کی بجائے نعش کو دوبارہ پانی میں پھینک دو، گزشتہ ایک عرصہ سے رونما ہونے والے درجنوں واقعات میں کسی ایک کے ذمہ داروں کا تعین نہیں ہوسکا لہذاضرورت اس امر کی ہے کہ انتظامیہ اور سیکورٹی حکام ایسا لائحہ عمل تیار کریں کہ جس کے تحت ایسے ہولناک واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے۔