ڈینگی کا خاتمہ فوری سپرے شروع کیا جائے
ہمارا یہ بھی المیہ ہے کہ ہم کسی وبائی یا موسمی مرض کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اسے سیاسی نعرہ کا درجہ دے کر اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کی سعی و کاوش کرتے ہیں
سری لنکا چونکہ ڈینگی وائرس کا شکار ہو چکا تھا اور وہاں اس وائرس پر قابو پانے کے لئے جدید میڈیسن سائنس سے کام لیا گیا اور ادویات کی تیاری کے ساتھ اس مرض کے خصوصی امراض کی ایک ٹیم تیار کی گئی
پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف نے اس پر قابو پانے کے لئے جنگی بنیادںو پر اقدامات اٹھائے
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پولیو کے خاتمہ کے لئے چلائی جانے والی مہم کو نام نہاد شریعت کی بھینٹ چڑھایا گیا اور بچوں کو پولیو کی ویکسین کے قطرے پلانے والی خواتین اور رضاکاروں کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے
وبائی امراض پوری دنیا میں کسی نہ کسی ملک میں انسانی صحت سے کھیلتی رہتی ہیں اور وہاں کی حکومتیں وبائی امراض کے خاتمہ اور اپنے عوام کو ان سے محفوظ رکھنے کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھاتی ہیں اور کامیابی حاصل کرتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا کردار مرکزی نوعیت کا ہوتا ہے جو وبائی امراض کے لئے انسدادی ادویات کی فراہمی کے ساتھ مالی امداد بھی کرتی ہیں اور تاریخ اس امر کی شہادت دیتی ہے کہ بعض وبائی امراض کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا ہے اس کی مثال چیچک جیسے موذی مرض سے دی جا سکتی ہے ، پوری دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں ہر کام ایڈہاک ازم کی پالیسی پر کاربند ہوتے ہوئے کیا جاتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں آئین کی موجودگی کے باوجود اب تک جس قدر بھی فوجی، نیم فوجی، جمہوری اور نیم جمہوری حکومتیں قائم ہوئی ہیں ان حکومتوں نے کسی بحران پر قابو پانے کی ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنے کی بجائے ایڈہاک ازم کو ہی اپنی پالیسی قرار دیا ہے اور آج بھی جن بحرانوں سے ہم گزر رہے ہیں نعرہ بازی بھی بہت ہوتی ہے اور بلندبانگ دعوے بھی بہت کئے جاتے ہیں لیکن کوئی ٹھوس، مربوط اور جامع پالیسی اختیار کرنے کی بجائے ایڈہاک ازم ہی ہمارا مطمع نظر ہوتا ہے۔ انسانی صحت کے حوالہ سے یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ پولیو جیسا خطرناک مرض پوری دنیا میں آہستہ آہستہ عدم وجود کا شکار ہوتا دکھائی دیتا ہے لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پولیو کے خاتمہ کے لئے چلائی جانے والی مہم کو نام نہاد شریعت کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے بچوں کو پولیو کی ویکسین کے قطرے پلانے والی خواتین اور رضاکاروں کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے اور اپنے اس اقدام ہلاکت کو امریکن دشمنی قرار دیتے ہوئے بڑا فخر کیا جاتا ہے حالانکہ ملائیت اور خودساختہ شریعت کے پیروکاروں کا یہ اقدام انسانیت دشمنی اور ابلیسیت کا مظاہرہ ہے اور معصوم انسانیت کے ساتھ اس سے بڑی دشمنی اور کیا ہو سکتی ہے کہ معصوم بچوں کو پوری زندگی کے لئے معذور و مجبور بنا دیا جائے اور ہمارا یہ بھی المیہ ہے کہ ہم کسی وبائی یا موسمی مرض کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اسے سیاسی نعرہ کا درجہ دے کر اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کی سعی و کاوش کرتے ہیں۔ اس کی زندہ مثال ڈینگی وائرس ہے جو ایک مخصوص مچھر کے کاٹنے سے پورے جسم میں سرایت کر جاتا ہے اور متاثرہ شخص زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں ڈینگی وائرس کے پھیلاؤ کی ابتدا صوبہ سندھ سے ہوئی۔ لیکن ہم اس وائرس کی تشخیص ہی نہ کر سکے اور اسے ملیریا کا نام دیتے رہے جبکہ اس وائرس میں مبتلا ہو کر متاثرہ مریضوں کی اموات ہونے لگیں تو عالمی ادارہ صحت نے اپنی تحقیق اور ریسرچ پر انکشاف کیا کہ ڈینگی وائرس حملہ آور ہو چکا ہے اور یہ وائرس بڑے سرعت اور تیزرفتاری کے ساتھ سندھ سے پنجاب میں داخل ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس وائرس نے پنجاب کے عوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تب ہماری آنکھیں کھلیں اور ایک شور برپا ہو گیا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف نے اس پر قابو پانے کے لئے جنگی بنیادںو پر اقدامات اٹھائے۔ سری لنکا چونکہ ڈینگی وائرس کا شکار ہو چکا تھا اور وہاں اس وائرس پر قابو پانے کے لئے جدید میڈیسن سائنس سے کام لیا گیا اور ادویات کی تیاری کے ساتھ اس مرض کے خصوصی امراض کی ایک ٹیم تیار کی گئی جنہوں نے شبانہ روز اپنی محنت، تحقیق اور ریسرچ سے سری لنکا کے عوام کو ڈینگی وائرس سے نجات دلائی۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف نے سری لنکا کے امراض سے بھی رجوع کیا اور سری لنکا کے ڈاکٹروں نے اپنے کام کا آغاز بھی کر دیا لیکن وفاقی حکومت نے ایسی چال چلی کہ سری لنکا کے ڈاکٹرز واپس چلے گئے۔ گویا سیاست کو مقدم قرار دیا گیا اور عوام سے کہا گیا کہ تم بھاڑ میں جاؤ۔ اب تک ہم ڈینگی پر قابو پانے کے لئے اربوں روپے خرچ کر چکے ہیں۔ ڈینگی چونکہ موسمی مرض ہونے کے باوجود کسی موسم میں بھی انسان پر حملہ آور ہو سکتا ہے کیونکہ جس مخصوص مچھر سے ڈینگی وائرس انسان کے جسم میں داخل ہوتا ہے وہ سارا سال موجود رہتا ہے لیکن ساون بھادوں یعنی اگست سے اکتوبر تک ڈینگی کے پھیلاؤ کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ سری لنکا نے اس پر 90فیصد قابو پا لیا اور انہوں نے ادویات بھی تیار کر لیں لیکن ہم نے ڈینگی پر قابو پانے کی ذمہ داری عوام پر چھوڑ رکھی ہے اور عوام سے کہا جاتا ہے کہ وہ ڈینگی لاروا کی روک تھام اور ڈینگی لاروا کے خاتمہ کے لئے خود اقدامات اٹھائیں اور اشتہارات کے ذریعے لاروا کی افزائش کی نشان دہی کی جاتی ہے اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہم نے ڈینگی پر قابو پا لیا ہے اور یوں لاکھوں روپیہ ڈینگی مکاؤ مہم اور فوٹو سیشن پر خرچ کر دیا ہے لیکن ڈینگی اور اس کا لاروا اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ بنیادی بات تو یہ ہے کہ ایک عام آدمی کو میڈیکل سائنس کا ماہر کیوں قرار دے دیا گیا اور جو فریضہ محکمہ صحت نے ادا کرنا ہے جو عام آدمی کیسے کر سکتا ہے یوں تو سبھی محکمہ جات ڈینگی مکاؤ مہم میں اپنے اپنے نمبر اسکور کرتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ہی فیصل آباد کے ڈی سی او نورالامین مینگل نے فیصل آباد کے ایک سینما ہال کو انسداد ڈینگی انتظامات نہ کرنے کے جرم میں سیل کر دیا اور اس کے مینجر اور اسسٹنٹ کو گرفتار بھی کرا دیا۔ ایک معروف نجی ہسپتال کے ایڈمن آفیسر کو بھی گرفتار کیا گیا۔ یہ نجی ہسپتال فیصل آباد کے ان ہسپتالوں میں شمار ہوتا ہے جہاں مریضوں سے ہزاروں روپیہ فیس کی مد میں وصول کیا جاتا ہے ہسپتال انتظامیہ نے کوئی انسدادی تدابیر اختیار نہیں کی تھیں۔جب ہسپتال بھی ڈینگی مچھر سے محفوظ نہیں ہیں تو عام جگہوں کا کیا عالم ہو گا۔ محکمہ تحفظ ماحولیات نے ڈینگی مکاؤ مہم کا جو آغاز کر رکھا ہے اس مہم کے دوران ٹائر شاپس، نرسریاں، کباڑخانوںکو جب چیک کیا گیا تو وہاں ڈینگی لاروا کی موجودگی پائی گئی۔ دعویٰ تو یہی کیا گیا ہے کہ ڈینگی کی افزائش گاہوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ بعض خبروں میں بتایا گیا ہے کہ شہر کے تیس سے زیادہ دکانداروں کے خلاف ڈینگی لاروا کے خاتمہ کے لئے انسدادی اقدامات نہ اٹھانے پر مقدمات قائم کر دیئے گئے ہیں اور بعض افراد کا یہ بھی الزام ہے کہ لاروا کی موجودگی کا خوف دلا کر بعض سرکاری محکموں کے اہلکار انہیں بلییک میل بھی کرتے ہیں چونکہ کرپشن ہماری گٹی میں شامل ہو چکی ہے،ہم کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ساون گزر رہا ہے اور مون سون کی بارشیں بھی ہو رہی ہیں اور اس موسم میں لاروا کی افزائش ہوتی ہے لہٰذا انتظامیہ اور حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ہمہ اقسام کے مچھروں کے خاتمہ کے لئے سپرے کا اہتمام کرے اور سپرے کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ ڈی سی او فیصل آباد نورالامین مینگل کو اس ضمن میں خصوصی اقدامات اٹھانے کی محکمہ صحت کو ہدایت جاری کرنے کی ضرورت ہے اور وہی انسدادی اقدامات اٹھانے کی ضروریات ہے جو سری لنکا نے اس مرض کے خاتمہ کو چیلنج قرار دیتے ہوئے اٹھائے۔