چودھری برادران سے میری کوئی ذاتی عداوت نہیں مگر انہیں اقتدار کی ہوس کا سنگین مرض لاحق ہے۔ اس کے حصول کے لئے انہوں نے پہلے جنرل ضیاالحق اور جنرل جیلانی کا ساتھ نبھایا، پھر جنرل پرویز مشرف کا، اب ان کا خیال ہو گا کہ وہ طاہرالقادری سے افراتفری مچوائیں گے تو پھر کوئی نیا جنرل آ جائے گا، یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ جنرل کیانی نے فوج کو سیاست سے دور کر دیا تھا، ان کے دور میں فوج نے اپنے عہد سے وفا کی مگر کیا کیا مواقع نہیں آئے، ایک سے ایک بڑھ کر سنہری موقع۔کبھی کیری لوگر بل پر اور کبھی میمو گیٹ پر فوج کا حکومت سے براہ راست جھگڑا ہوا، زرداری کو ملک چھوڑ کر دبئی کے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا، وزیر اعظم گیلانی کی بھی چھٹی ہو گئی مگر جمہوری سسٹم چلتا رہا اور فوج اپنے مشن پر کاربند رہی، اب بھی فوج کو اپنا مشن عزیز ہے، یہ مشن ہے دہشت گردی کا خاتمہ ، ملک کی سلامتی کا تحفظ اور عوام کی جان و مال کا تحفظ ملک ہے تو فوج بھی ہے ورنہ مشرقی پاکستان نہ رہا اور ہماری ایسٹرن کمان کا نام و نشان مٹ گیا، بھارت کی ایسٹرن کمان ویسے کی ویسے ہے۔
فوج نے بڑی مشکل سے نیک نامی کمائی ہے، آج قوم اور فوج کے مابین کوئی فاصلہ نہیں ، عوام اپنی بہادر اور قربانی دینے والی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اس لئے فوج سے کوئی سیاسی مہم جوئی کی توقع نہ رکھے اور وہ بھی چودھریوں کے لئے یا ایک کینیڈین کے لئے یا ایک بلے باز کے لئے، ہرگز ایسا نہیں ہو گا، پھر بھی فوج کو بدنام کرنے والے بہت ہیں، کوئی کہتا ہے کہ جنرل راحیل آ جائے گا تو کیا ہو گا، پہلے بھی کئی جنرل راحیل آئے، یہ ایک ایسے شخص کے لئے گالی ہے جس نے کوئی غلط قدم ابھی اٹھایا ہی نہیں، وہ تو شمالی وزیرستان میں اپنے جانبازوں کے ساتھ عید منانے گیا، جبکہ زرداری نے عید نیو یارک میں شاید امریکی نائب صدر بائیڈن کے پہلو میں ادا کی۔
تو چودھری کس کلے پر ناچ رہے ہیں، کلہ کہیں ہے کوئی نہیں، صرف ذاتی خواہشات کا الاﺅ ہے جس کی تپش روز بروز تیز ہو رہی ہے۔ اقتدار سے دوری ایک سیاستدان کے بس کی بات نہیں، مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ مگر چودھریوںنے بہت سیاست کر لی۔ پچھلی صدی کے اسی کے عشرے میں حکومت میں آئے اور ایک سال پہلے تک وہ تخت سلیمانی پر متمکن تھے۔ یہ عرصہ چوتھائی صدی پر محیط ہے۔ وہ اکبر بادشاہ یا اورنگ زیب تو نہیں، اسکندر بھی ساری دنیا پر حکمرانی کے بعد تھک گیا تھا۔
چودھری کہہ سکتے ہیںکہ انہوںنے بڑے اچھے کام بھی کئے تو ٹھیک ہے کئے، مگر اب اگلی نسل کو آگے آنے دیں، مونس الٰہی روزانہ شہنشاہ دوراں طاہرالقادری کے دونوں شہزادوں، حسن اور حسین کے پاس آتا جاتا دکھائی دے۔ مریم اور حمزہ سے ملے یا بلاول سے مل کر کھچڑی پکائے۔ ان کے پلے کچھ ہو گا تو عوام سے پذیرائی ملے گی ورنہ یہ سب راندہ¿ درگاہ ہو جائیں گے۔
تو پھر چودھری کس کام کے ہیں۔ بڑے کام کے ہیں۔ ان کے پاس چودھری ظہور الٰہی اور اللہ کا دیا بہت کچھ ہے، بنکوں کے معاف کرائے گے قرضوں کا ڈھیر ہے، ملکو ں ملکوں کاروبار پھیلا ہوا ہے۔وہ اس دولت کو کسی نیک مصرف میں لائیں ۔
میں نے ان کالموں میں میاں نواز شریف پر سخت سے سخت تنقید کی ہے مگر میں ان کی نیکیوں کا اس دن معترف ہوا جب ہمارے نوائے وقت کے ساتھی حسنین جاوید اللہ کو پیارے ہوئے، وہ اداکار محمد علی کی گاڑی میں سوار تھے اور تب معلوم ہوا کہ محمد علی صاحب شریف برادران کی جلاوطنی کے زمانے میں ان کے کار خیر کی نگرانی کرتے تھے اور اس روز وہ شریف سٹی ہسپتال کے امور کو دیکھنے گئے تھے کہ واپسی پر حسنین جاوید کو دل کا جان لیوا دورہ پڑا۔ یہ المیہ رونما نہ ہوتا تو کسی کو پتہ ہی نہ چلتا کہ میاں نواز شریف ملک سے دور رہ کر بھی بےکسوں کی خبر گیری کا نظام تن دہی سے چلا رہے ہیں اور اس کی کوئی تشہیر بھی نہیں کرتے، میں نے بعد میں کھوج لگایا تو پتہ چلا کہ علی بھائی یہ کام ایک عرصے سے انجام دے رہے ہیں اور شریف خاندان کے سارے خیراتی پراجیکٹ کو وہی سنبھالے ہوئے ہیں۔
میںنے شریف خاندان کی مثال چودھریوں کو چڑانے کے لئے نہیں دی، یہ مثال انہیں پسند نہ آئی ہو تو وہ ملک ریاض بحریہ ٹاﺅن والے کی نیکیوں کو سامنے رکھیں کہ کس طرح وہ ہر ملکی اور قومی آفت میں بے دریغ خرچ کرتا ہے اور لوگوں سے داد بھی پاتا ہے۔ نیکی اللہ کو بھی محبوب ہے اور لوگ بھی اس کی تعریف و توصیف میں بخل سے کام نہیں لیتے، میں تو ملک ریاض کو نیکیوں کا بحیرہ عرب کا خطاب دے چکا ہوں۔ ان کے بھائیوں جیسے دوست حاجی نواز کھوکھر نے اس خطاب کو بہت پسند کیا تھا۔ ہو سکتا ہے وہ اپنی نیکیوں کے طفیل اگلے صدر بن جائیں۔ زرداری کی تیاری یہی ہے۔ اور یقین رکھیں کہ وہ ممنون حسین سے زیادہ لوگوں کو ممنون کریں گے۔
چودھری صاحبان اپنے قصیدے لکھوانا چاہتے ہیں تو بسم اللہ کریں، بُلٹ پروف گاڑی میں بیٹھیں اور طاہرالقادری کے گھر کا طواف کرنے کے بجائے بنوں کا رخ کریں ، آگے شمالی وزیرستان کے میران شاہ کے بازار میں جائیں، راستے میں آفتوں کی ماری ماﺅں بہنوں کے سر پر ہاتھ رکھیں، اور دنیا کے انتہائی خطرناک علاقے کے مورچوںمیں جانیں ہتھیلی پر رکھے جوانوں اور افسروں کے شانوں پر تھپکی دیں۔ خدا کی قسم! میں چودھریوں کا چشم دید شاہنامہ لکھنے کے لئے یہ پر صعوبت سفر ان کی ہمراہی میںکرنے کو تیار ہوں۔ کیا ظلم ہے کہ ابھی تک طاہرالقادری کو بھی بنوں جانے کی توفیق نہیں ہوئی، وہ اپنے شہدا کی قرآن خوانی کرنا چاہتے ہیں، ضرور کریں مگر ایک قرآن خوانی پاکستان کے ساٹھ ہزار بے گناہ شہیدوں کے لئے بھی کریں اور کبھی گیاری کے شہدا اور جی ایچ کیو میں نامعلوم شہید کی یادگار پر بھی قرآن خوانی کرنے جائیں۔ اس نیک کام سے انہیں کس نے منع کر رکھا ہے اور چودھریوں کے راستے میں بھی کیا امر مانع ہے کہ وہ نیکی کے کاموں کی طرف مائل نہیں ہوتے، امریکی صدر بل کلنٹن نے دنیا کی سپر پاور کی سربراہی کی، اب وہ نیکیاں کمانے پر توجہ دے رہا ہے، لیڈی ڈیانا کے پاس کون سی آسائش نہیں تھی مگر وہ افریقہ میں بارودی سرنگوں سے مارے جانے والوں کے خاندانوں کی غم خوار بنتی تھی۔ میں اتنی دور نہیں جاتا، لاہور میں دیکھ لیں، گنگا رام اور گلاب دیوی کی نیکیوں کا شمار نہیں ہو سکتا ور ایک بار پھر معذرت کے ساتھ مثال دوں گا کہ گجرات میں اپنے گھر کے دروازے پر زمیندارہ کالج کو دیکھ لیں، کئی نسلیں علم کے نور سے منور ہو کر یہاں سے نکلیں، چودھریوں کے کرنے کے کام اب یہی ہیں۔ میں انکا ڈھنڈورچی بنوں گا، نیکی کا ڈھنڈورا بھی نیکی ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38