منگل 8 شوال المکرم ‘ 1435 ھ ‘ 5 اگست2014ئ
محترم مجید نظامی 1950ءسے 1955ءتک نوائے وقت کا معروف کالم ”سرراہے“ باقاعدگی سے لکھتے رہے جو ان کی حسِ مزاح اور فکاہیہ کالم میں پختگی کا بیّن ثبوت ہے۔ قارئیں کی دلچسپی کیلئے محترم مجید نظامی کے تحریر کردہ سرراہے کے منتخب ٹکڑے پیش کئے جا رہے ہیں۔ (ایڈیٹر)
ووٹ اور نوٹ کا چکر بہت بُرا ہے، اس میں پڑ کر بعض اچھے خاصے لیڈر اور حکومتیں عجیب و غریب حرکتیں کر جاتی ہیں۔ ووٹ اور نوٹ حاصل کرنے کیلئے کئی کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ برطانوی حکومت ہی کو لیجئے چین میں نوٹوں کی ضرورت تھی امریکہ کا انتظار کئے بغیر چین کی کمیونسٹ حکومت کی نمائندہ حیثیت کو تسلیم کر لیا اور بقول چینی سفیر مقیم لندن برطانیہ نے چین کی قومی حکومت کو مرنے سے پہلے ہی دفن کر دیا۔ صرف نوٹوں کی خاطر!
لیکن یو این او میں ووٹ کی ضرورت تھی حفاظتی کونسل میں کمیونسٹ چین کو نیشنلسٹ چین کی جگہ دلانے سے انکار کر دیا۔ وہاں اس بات پر اصرار کیا جا رہا ہے کہ چینی عوام کے اصلی نمائندے قوم پرست چینی ہی ہیں۔ میٹھا میٹھا ہڑپ اور کڑوا ....ہمارے بعض اربابِ حکومت بھی برطانیہ پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں ممکن ہے یہ بات اب ان کی سمجھ میں آ جائے کہ برطانیہ کسی کا سگا نہیں۔ نوٹ اور ووٹ کا مقصد حاصل کر لینے کے بعد غچہ دے جانا اس کیلئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے!
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
کامریڈ مالنکوف کو روس میں آجکل وہی پوزیشن حاصل ہے جو گاندھی جی کی زندگی میں کانگرس میں پنڈت نہرو کو حاصل رہی۔ پنڈت جی مہاتما گاندھی کے ”جائز وارث“ اور ”دھرم پتر“ سمجھے جاتے تھے۔ کامریڈ مالنکوف کو ان دنوں روس میں مارشل اسٹالین کے ”دھرم پتر“ کی حیثیت حاصل ہے۔ آگے چل کر ممکن ہے ان کا حشر بھی روسی سپریم کورٹ کے صدر کامریڈ ایوان گولیاکوف سا ہی ہو مگر اس وقت تو ان کا ستارہ عروج پر ہے۔ ہمارے بعض معاصرین نے کامریڈ مالنکوف کی تقریر کے ایک اقتباس کو نمایاں طور پر شائع کیا ہے جس میں پارٹی ممبروں کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ تنقید سے نہ گھبرائیں کیونکہ محاسبہ کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔ پارٹی ممبروں کو تنقید کا خیرمقدم کرنا چاہئے۔ ہمارے جن معاصرین نے مذکورہ بالا اقتباس کو نقل کیا ہے ان کا منشا غالباً یہ دکھانا ہے کہ روس میں آزادی¿ تقریر و آزادی¿ تحریر عام ہے اور کامریڈ مالنکوف ایسی مقتدر شخصیت بھی کھلم کھلا تنقید کا خیرمقدم کرتی ہے۔
(مجید نظامی ۔ ہفتہ 14 جون 1950)
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
کراچی میں بیسیوں ہلاکتوں اور پابندی کے بعد بھی بڑی تعداد میں لوگ ساحل سمندر پر آئے!
اب ان لوگوں کے پاس تفریح کیلئے ساحل سمندر کے علاوہ کراچی میں بچا ہی کیا ہے۔ آئے روز جلاﺅ گھیراﺅ اور مارا ماری کے ستائے اس شہر میں چُھٹی کے دن صرف ساحل ہی ایسی تفریح گاہ رہ جاتا ہے جہاں جا کر گرمی اور حالات کے ستائے یہ لوگ کچھ دیر سستا یعنی آرام کر لیتے ہیں‘ ویسے تو یہاں کچھ بھی سستا نہیں۔اب اگر ساون بھادوں یعنی مون سون کے مہینے میں جب جوار بھاٹا کے باعث سمندر بپھرا ہوتا ہے، بدمست لہریں ساحل پر سر پٹکنے کی بجائے وحشی ہو کر ساحل سے باہر لپکتی ہیں تو یہی پُرسکون ساحل من چلوں کیلئے ایک ایڈونچر کی جگہ بن جاتا ہے۔ عام شہری تو سمندر سے کچھ فاصلے پر محفوظ جگہ پر انجوائے کرتے ہیں مگر بہت سے نادان جو سمندر کی زبان نہیں سمجھتے وہ بنا سوچے سمجھے سمندر کے قریب چلے جاتے ہیں اور اسی لاپروائی کی وجہ سے ایسے سانحات رونما ہوتے ہیں۔ اب کوئی ہمارے ان منچلوں کو سمجھائے کہ بھیا یہ کراچی ہے میامی، واشنگٹن، سڈنی، یا بنکاک کا ساحل نہیں جہاں ہر قدم پر حفاظتی انتظامات، لائف گارڈ، سکیورٹی اہلکار اور لائف بوٹس ہمہ وقت تیار ملتے ہیں حالانکہ وہاں سمندر میں لہروں پر تیراکی عام ہے۔ مرد و زن اور بچے تک سمندر میں نہاتے، تیرتے اور کھیلتے نظر آتے ہیں مگر حکومت کے بھرپور انتظامات کی وجہ سے سانحات کم ہی رونما ہوتے ہیں اور یہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ حکومت نے سمندر کے اصل باسیوں یعنی مچھیروں کے سمندر میں جانے اور مچھلیاں پکڑنے پر پابندی لگا دی ہے۔ انکی روٹی پانی کا ذریعہ یہی سمندر ہے۔ اب یہ بیچارے پریشان ہیں مظاہرے کر رہے ہیں کہ انہیں روزگار پر جانے کی اجازت دی جائے اور جن کو روکنا ہے انہیں روکے جو آج بھی بے دھڑک سمندر کی سیر فرما رہے ہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
پاکستان نے سارک ڈویلپمنٹ بنک کے قیام کی حمایت کر دی!
اب ماہرین معاشیات اسے حماقت کہیں تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ جن ممالک کی اپنی یہ حالت ہے کہ وہ ابھی تک اپنے علاقائی تنازعات حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ایک دوسرے پر اعتماد کا بھی فقدان ہے وہاں پر ایک بنک اور ایک کرنسی کا خواب کوئی احمق ہی دیکھ سکتا ہے۔ سارک کے 2 بڑے قابل ذکر ممالک پاکستان اور بھارت تو آزادی کے بعد سے اب تک مسئلہ کشمیر اور پانی جیسے مسائل حل نہیں کر سکے۔ بھوٹان، مالدیپ، برما اور بنگلہ دیش تو بھارت کے دست نگر ممالک ہیں‘ گویا یہ سارا کھیل بھارتیہ نوٹنکی کا رچایا ہوا ہے اور ہماری حکومت بھی آجکل بھارت کی محبت میں کچھ زیادہ ہی غرق ہے جبکہ بھارت ہے کہ بار بار ہماری محبت کا امتحان کبھی ممبئی دھماکہ کیس، کبھی سرحدی دراندازی کے الزامات اور کبھی آبی جارحیت کی صورت میں لیتا رہتا ہے مگر ہم ہیں کہ ....
میں تیرے عشق میں مر نہ جاﺅں کہیں
تُو مجھے آزمانے کوشش نہ کر
والا گیت گنگناتے ہوئے اسے راضی رکھنے کی ہرممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اب خرم دستگیر وزیر تجارت نے بھی آﺅ دیکھا نہ تاﺅ سارک بنک کے قیام اور کرنسی کی حمایت میں فوراً بیان داغ دیا۔ ساتھ ہی سارک ممالک کیلئے راہداری کی سہولتیں بہتر بنانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ذرا غور تو کریں، کس سارک ملک کی سرحد ایران کے علاوہ پاکستان سے ملتی ہے سوائے بھارت اور افغانستان کے اور بدقسمتی سے یہ دونوں ہمارے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے۔