حق گوئی، صداقت اور اخلاقیات کی صحافت کا سانگلہ ہل سے شروع ہونیوالا سفر انگلینڈ اور میسن روڈ سے ہوتا ہوا لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں اختتام کو پہنچا۔ رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں میںتاجدار صحافت ڈاکٹر مجید نظامی عشرہ مغفرت، ممکنہ شب قدر‘ جب ہرسو رب کائنات کی رحمتیں نچھاور ہو رہی ہوتی ہیں ان گھڑیوں میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں دعائوں کی چھائوں میں اللہ کی رحمت میں چلے گئے۔ آبروئے صحافت کا سفر آخرت پاکستان کی عظیم اور بے داغ صحافت کا سفر آخرت تھا جہاں ہر آنکھ پرنم اور ہر چہرہ غمگین تھا۔ گورنر، وزیر اعلیٰ‘ سپیکر قومی اسمبلی اور کئی ایسے جو اپنے اپنے شعبوں میں ’’امام‘‘ کہلاتے ہیں وہ سب تاجدار صحافت کے سفر آخرت کے شریک ٹھہرے۔ تمام کے تمام دست بستہ اور ہاتھ اٹھائے اپنے روحانی استاد کی مغفرت بخشش اور بہتر ابدی زندگی کی دعا کرتے نظر آئے۔ ادارہ کے کارکنان‘ نسل در نسل نوائے وقت کے مطالعے سے فیض یاب ہونے والے بھی نڈھال تھے۔ ہر کوئی اپنے ’’باس‘‘ کی جدائی اور کبھی دوبارہ ملاقات نہ ہونے کے دکھ کا اظہار کرتا نظر آیا۔ ڈاکٹر مجید نظامی سے پاکستانی عوام کا محبت اور احترام کا رشتہ تھا جو ان کے سفر آخرت میں غالب نظر آیا۔ سب نے محبت کے ساتھ خالق کائنات کو اس کی امانت دعائوں میں لوٹاتے ہوئے انہیں اپنی زوجہ ریحانہ مجید نظامی کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا۔ بعدازاں رسم قل میں بھی تعزیت کرنیوالوں کا تانتا بندھا رہا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
عمر کے 86 برس‘ 74 برس صحافت اور 52 سال بحیثیت ایڈیٹر ایسی شان‘ عزت اور خودداری سے گزارے جونا صرف پاکستان بلکہ اس پاک دھرتی کی سرحدوں سے باہر بھی صحافت کرنیوالوں اور اس شعبے میں آنیوالوں کیلئے تحریک کا باعث بنے رہیں گے۔ ڈاکٹر مجید نظامی اندرون و بیرون ملک پاکستان کی مضبوط، خالص، جاندار، رعب دار اور بے باک آواز سمجھے جاتے تھے۔ ایسی آواز جو وقت کے حکمرانوں کو للکار کر سیدھا راستہ دکھاتی نظر آتی ہے‘ ایسی آواز جو ایوب خان کو للکارتی ہے‘ ایسی آواز جو ضیاء الحق سے یہ کہتے ہوئے نظر آتی ہے کہ ’’ساڈی جان کدوں چھڈو گے‘‘ جناب مجید نظامی کی طرف سے نواز شریف کو یہ کہتے ہوئے بھی ہم نے سنا کہ ’’دھماکہ کر دیں ورنہ عوام آپ کا دھماکہ کر دینگے‘‘۔ ڈاکٹر مجید نظامی ایک ایسی مسحور کن شخصیت تھے جن کی گفتگو گھنٹوں سننے کے بعد بھی تشنگی باقی رہتی تھی۔ جناب مجید نظامی کے انتقال سے ایک عہد اختتام کو پہنچا ہے ساتھ ہی ایک نئے عہد کا آغاز بھی ہوا ہے اب خاندان نوائے وقت کی سرپرستی محترمہ رمیزہ نظامی کے ذمے آئی ہے۔ یہ عظیم تر ذمہ داری ہے۔ ان سے بے پناہ توقعات ہیں ادارہ کے کارکنان کے ساتھ دنیا بھر میں پھیلے قارئین نوائے وقت کی امیدیں بھی وابستہ ہیں محترمہ رمیزہ نظامی سے صرف توقعات اور امیدیں ہی نہیں بلکہ وہ سینکڑوں ہزاروں نہیں لاکھوں دعائوں کی رحمت میں بھی ہیں۔ جناب مجید نظامی نے ساری عمر بھرپور صحافت کی ہے۔ ہر مشکل وقت میں وہ قوم کی آواز بن کر سامنے آئے ہیں۔ ان کا مخصوص طرز صحافت ان کی پہچان بنا تو آج نوائے وقت کے کلر ایڈیشن‘ سنڈے میگزین اور دی نیشن کے رنگین صفحات اور سنڈے پلس میں جو جدت نظر آ رہی ہے۔ اسکے پیچھے محترمہ رمیزہ نظامی کی ہی سوچ اور کاوش ہے۔ نظامی صاحب نے ساری عمر ملک میں فوجی و سول آمریتوں کے خلاف جدوجہد کر کے گزار دی۔ آج ملک میں انتشار ہے‘ افراتفری اور نفرت نظر آ رہی ہے ساتھ ہی بین الاقوامی سطح پر بھی بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی سطح میں ملک کا خوش کن امیج ابھارنے ‘عزت اور وقار کے ساتھ اپنی پہچان برقرار رکھنے کی ضرورت ہے اور یہ کام محترمہ رمیزہ نظامی کی سربراہی میں نوائے وقت گروپ عمدہ و احسن طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔ عہد نظامی پاکستان کی نظریاتی صحافت کا عہد تھا تو نیا عہد قومی و بین الاقوامی سطح پر ملکی مسائل کو منفرد انداز میں پیش کرنے کا عہد ہو گا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38