(پروفیسر ڈاکٹر سید محمد علی ڈی جی خان میڈیکل کالج)
جب قوم سو رہی تھی وہ عملاً رہا مگن
دُھن تھی ترقی ملک کی خوشحالیٔ وطن
یہ ملک اسکی جان تھا، اس جان کے لئے
حاضر تھا جب بھی مانگئے تن من تمام دھن
شیروں سا اسکا دل تھا، مومن تھا مسلماں
خواہش تھی مسلم ایک ہوں، یکجان ایک تن
اسکی مثال کیسے دیں لکھنا محال ہے
مردِ زباں مردِ قرآں مردِ عمل سخن
جب سے سنبھالا ہوش تو شام و سحر تھے یوں
تھی ابتدا انکی وطن، تو انتہا وطن
میرے لئے تو پیر ہے وہ منیر ہے
اسکے عمل افکار سے قائم ہے انجمن
تان اسکی ٹوٹتی تھی، تو بس ایک بات پر
کیسے ترقی ہو، جو ہو، خوشحالیٔ وطن
ملت کی وہ تو ڈھال تھا کیا بے مثال تھا
حیدرؓ کا وہ غلام تھا باطل کا صف شکن
عشق نبیؐ سے چُور تھا وہ آل کا غلام
حسنینؓ کا سفیر تو حیدرؓ کا بانکپن
وہ چاہتا تھا سچے صحابہؓ کی پیروی
قربان پھر ماں باپ ہوں سرکارِ کُل زمن
اسکی وجہ سے ملک یہ ایٹم سے لیس ہے
تاریکی میں بس ہے وہی روشن سی اک کرن
جانیں کہاں ہیں لگو کہ ہے آسماں کو سوگ
دفنائے خاک نے بڑے افلاک اور گگن
اسکی فکر و سوچ کا محور وطن رہا
ترکیب ہو درست، زبوں حالیٔ وطن
روئے نوائے وقت اکیلا ہی کیوں اسے
محسن ہے وہ سبھی کا، جانے زمیں گگن
قائد کا وہ سالار تھا وحدت کا تھا نقیب
اُمت کے جوڑنے کو یوں بندھن بنا سجن
دشمن کے واسطے جہاں شیروں کی دھاڑ تھی
اپنوں کے واسطے، نرم گفتار خوش لحن
جسکی فکر کے پھول ہی سچے اصول ہیں
رہبر رکھو تو کیوں نہ پھر پھولے پھلے وطن
ستائیسویں کو چل دیا جنت مکیں ہوا
گہنا گیا ہے چاند کہ واصل زمیں ہوا
اللہ کی رضا سے وہ عازم بریں ہوا
ہم پہ تو فرض اسکا عمل، صالحین ہوا
خوش ہو گا، اسکی راہ چلے، مسند نشیں ہوا
جیون سے خوش آقاؐ بھی اور عرشِ بریں ہوا
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024