ٹیرف کے پیچھے امریکی سویابین ، بیف نہ منگوانے ‘کمپنیوں کو ٹھیکے نہ ملنے کی شکایات

Apr 05, 2025

اسلام آباد (عترت جعفری)پاکستان پر امریکہ کی طرف سے اضافی ٹیرف نافذ کرنے کے عقب میں امریکی سویابین ،امریکی بیف نہ منگوانے  اور امریکی کمپنیوں کو ٹھیکے نہ ملنے کی شکایات،اینٹیلیکچول پراپرٹی رائٹس قوانین پر موثر عمل درامد نہ ہونے پر سنجیدہ تحفظات ، ایف بی ار پر ایڈوانس ٹیکس کے لیے امریکی کمپنیوں کا بازو مروڑ نے،انٹرنیٹ کے بند ہونے کے شکوے ہیں،پاکستان نے امریکی اعتراضات  کے حوالے سے کام شروع کر دیا ہے  ،اس ورکنگ کے دوران  ان امور کو پیش نظر رکھنا ہو گا جن کا ذکرکیا گیا ہے ،امریکہ کی طرف سے اضافی ٹیرف کے نفاذ کے حوالے سے کم و بیش 400 صفات پر مبنی دستاویز کے مندرجات کے مطابق امریکہ نے کسٹم رول نمبر 391 نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پاکستان کے اندر مال درامد کرنے والوں کے لیے سخت مشکلات ہیں اس پر عمل نہ کرنے والے اشیاء￿  کے مالک پر جرمانے عائد کر دیے جاتے ہیں ایسی کمپنیاں جو ری انوائسنگ یا ٹرانزٹ سٹوریج کی سہولتیں لیتی ہیں ان کے لیے دستویزات کے حوالے سے مشکلات ہیں پاکستان نے ڈبلیو ٹی او کے مطابق کسٹم ویلیویشن کے متعلق قانون سازی تو کر لی تا ہم کسٹم ویلیویشن ایگریمنٹ پر عمل کے بارے میں ڈبلیو ٹی او کی چیک لسٹ اف ایشوز کے مطابق معاہدے پر عمل کے بارے میں کوئی جواب نہیں دیا،ایس ار او 237 پر بھی اعتراضات کیے گئے ہیں،امریکی اعتراضات پر مبنی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ انٹلیکچول پراپرٹی رائٹس قوانین پر عمل کے حوالے سے پاکستان کے پانچ شہروں میں ائی پی ٹرمنلز قائم کیے گئے تاہم ان میں قانونی چارجوئی کرنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ انٹرولرز میں صلاحیت کپتان ہے ان کی روحولی میں مطابقت نہیں ہوتی جرمانے بہت معمولی ہیں اور یہ کنفیوڑن بھی موجود ہے کہ انٹرومینلز کے فیصلے کے خلاف اپیل کون سی عدالت سنے گی فارماسیوٹیکل پرنٹڈ ورک ڈیجیٹل کنٹینٹ سافٹ ویئر میں جال سازی بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے،پاکستان میں کام کرنے والی امریکی کمپنیوں کو منافع اپنے ملک بھیجنے کے حوالے سے بیوروکریسی کی رکاوٹیں موجود ہیں ،،امریکہ کی طرف سے پاکستان پر ٹیرف کے نفاذ کے جواز دستاویز میں جو دلائل دیے گئے ہیں ان کے مطابق پاکستان کا ایم ایف این اپلائیڈ ٹیرف  10.3 فیصد ہے،جبکہ زراعت کی مصنوعات کے لیے ایم ایف این اپلائی ریٹ 13 فیصد ہے اور غیر زرعی مصنوعات کے لیے 9.9 فیصد ہے،پاکستان میں  ٹیرف ریٹ میں کمی کے باوجود امریکی کمپنیاں پاکستان کے حوالے سے یہ شکایت کرتی ہیں کہ ان کو ہائی ٹیرف ریٹس کا سامنا ہے اور کچھ معاملات میں ایڈیشنل ڈیوٹیز بھی لگا دی جاتی ہیں جیسے کہ اٹوموبیل اور فنش گڈز پر لگی ہوئی ہیں،پاکستان میں ایس ار اوز سٹیک ہولڈرز کی اصلاح مشورے کے بغیر ہی جاری ہو جاتے ہیں اور نہ ہی امپورٹرز کو ان پر عمل درامد کے لیے وقت دیا جاتا ہے،نان ٹیرف بیریئرز کے حوالے سے امریکی دستاویز میں کہا گیا ہے پاکستان میں  ایسی درآمدات بھی ہیں جن کے لیے وزارت موسمیاتی تبدیلی وزارت داخلہ اور وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز اینڈ ریگولیشن سے منظوری لینا پڑتی ہے،11 جولائی 2024 کو پاکستان نے ایس ار او جاری کیے جن کے تحت گندم کی امپورٹ اور ایکسپورٹ پر پابندی لگائی گئی،امریکی فوڈ اینڈ کنزیومر پروڈکٹ ایکسپورٹرز کی طرف سے حکام کے سامنے تشویش ظاہر کی گئی کہ پاکستان میں کسٹم ویلیویشن کے حوالے سے یکسانیت موجود نہیں ہے جس سے امریکی سٹیک ہولڈرز کو پریشانی ہوتی ہے،مشینری اور مٹیریل سیکٹرز میں یہ اطلاعات بھی سامنے ائی کہ کسٹم کے حکام گڈز کی ویلیو کو کم از کم ویلیو کی بجائے ڈیکلیئرڈ ٹرانزیکشن ویلیو کی بنیاد پر تشخیص کرتے ہیں،امریکی حکام کی طرف سے کسٹم رولز 389 اور 391 پر سخت اعتراضات اٹھائے گئے ہیں،پاکستان نے بیف اور اس کی مصنوعات کی امریکہ سے درامد پر تسلسل سے پابندی لگا رکھی ہے, اب پاکستان اور امریکہ کے درمیان اصولی طور پر ایک معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت ایکسپورٹ سرٹیفکیٹ جاری ہوگا جس کے بعد امریکی بیف کے لیے پاکستانی مارکیٹ کھلے گی اس معاہدے بروئے کار لانے کا انتظار دسمبر 2024 سے کیا جا رہا ہے،2022 میں پاکستان کہ کسٹم حکام نے امریکہ کی سویابین کی دو شپمنٹس کو روک لیا،امریکی کمپنیاں یہ توقع رکھتی ہیں کہ 2025 کی پہلی سہ ماہی میں امریکی سویابین کی درامد  نئے بائیو سیفٹی رولز کے تحت کھلے گی،امریکی کمپنیوں کی طرف سے بار بار یہ شکایت کی جا رہی ہے کہ وہ پاکستان میں قیمت کی بنیاد پر جمع کرائے جانے والے ٹینڈرز میں کامیاب نہیں ہوتی،انٹرنیٹ سروسز کی بندش کے مسئلے کو بھی شکایت کے طور پر بیان کیا گیا ہے،ایک شکایت یہ بھی کی گئی ہے کہ امریکی کمپنیاں ایف بی ار کی طرف سے ممکنہ ٹیکس لائبلٹیز کو قبل از وقت ادا کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا کرتی ہیں،جبکہ ان کے مقابلے میں مقامی کمپنیاں ٹیکس نہیں دیتی    اورٹیکس کی چوری میں ملوث ہیں،پاکستان میں نیشنل اکاؤنٹبلٹی بیورو کرپشن کے خلاف لڑنے کے لیے ایک ادارہ ہے  تاہم کاروباری سول سوسائٹی سٹیک ہولڈرز اس ادارے  کے  موثر کام کے حوالے سے تحفظات ظاہر کرتے ہیں، اگرچہ گندم اور اس کے اٹے کی برامد کی سرکاری طور پر ممانعت ہے تاہم افغانستان کو جو گندم یا اس آٹا جا رہا ہے اس کی مقدار پانچ لاکھ ٹن ہے۔

مزیدخبریں