’’اُردو ادب کے مختلف زاویے‘‘

Apr 05, 2025

سید روح الامین....برسرمطلب

 

سیّد روح الامین 
علم و ادب کی دنیا میں ڈاکٹر فردوس انور قاضی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ ’’اُردو ادب کے مختلف زاویے‘‘ اُن کا شاہکار میرے ہاتھ میں ہے، یہ کتاب چھ بڑے عنوانات، کلاسیکی ادب، تحقیق و تنقید، شخص و عکس ،ادبی فکری زاویے، بیگم ثاقبہ رحیم الدین شخصیت اور فن اور اضافی صفحات پر مشتمل ہے۔ ہر عنوان مختلف ذیلی عنوانات پر مشتمل ہے۔ مثلاً کلاسیکی ادب میں اندر سبھا، باغ و بہار، میر تقی میر، مرزا ہادی رسوا کا ناول ’’امرائو جان ادا‘‘، ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ’’ابن الوقت‘‘، فراق گورکھپوری معاصرین کی نظر میں، حسرت موہانی کی شاعری کا اسلوب، قراۃ العین حیدر کی انفرادیت، سید ضمیر جعفری، اردو افسانہ نگاری کا ایک بڑا نام ۔ سعادت حسن منٹو، شیر شاہ سید اردو افسانہ نگاری میں ایک اہم اضافہ، ’دل کی بساط‘محمود احمد قاضی کا افسانوی مجموعہ ’’سلطنت‘‘ شامل ہیں۔ اسی طرح تحقیق اور تنقید میں ’’بلوچی کے اردو تراجم‘‘، اردو بحیثیت سرکاری اور تعلیمی زبان ، اردو شاعری کا ارتقائی جائزہ وغیرہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ ’’شخص و عکس‘‘ میں پروفیسر مجتبیٰ حسین، ڈاکٹر عرفان احمد بیگ، آغا گل، اقبال ،فیض اور حبیب جالب کے بارے میں ظفر اقبال کی رائے پر بحث مدلل انداز میں کی گئی ہے۔ ’’ادبی فکری زاویے میں‘‘ ادب، ثقافت اور جمہوریت، سوالیہ نشان، طبقاتی نظام تعلیم کے منفی اثرات، سائنس ادب اور ادیب کو موضوع بنایا گیا ہے، بیگم ثاقبہ رحیم الدین کی شخصیت اور فن میں بیگم ثاقبہ رحیم الدین کی علمی، عملی اور ادبی جدوجہد، ان کا فن اور شخصیت بیگم ثاقبہ کی کہانیاں، ان کی کتاب ’’محبت‘‘ کے آئینے میں بیگم ثاقبہ رحیم الدین کی نئی کتاب ’’اُجالا‘‘ وغیرہ پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ ان موضوعات سے مکمل اور پورا انصاف برتا گیا۔ ڈاکٹر فردوس انور قاضی ’’اپنی بات‘‘ میں لکھتی ہیں۔
’’اردو ادب کے مختلف زاویے‘‘ میری ان تحریروں کا مجموعہ ہے جو نامساعد حالات میں لکھے گئے ہیں، لکھنے کا وقت تھا نہ ماحول… لیکن یہ کوئی فطری مجبوری تھی جس نے ہمیشہ بے چین رکھا۔ افسانے، ناول، تحقیق اور تنقید جو کچھ بھی لکھا اس بے چینی کا شاخسانہ تھا جس سے محفوظ رہنے کے لیے لکھنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا۔‘‘
ڈاکٹر فردوس انور قاضی  نے 1971ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم۔ اے اور 1983ء میں بلوچستان یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ مختلف عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ بلوچستان میں صدرِ شعبہ اُردو بھی خدمات سرانجام دیں اور 2008ء میں ڈین فیکلٹی آف لینگوئج لٹریچر کے عہدے سے ریٹائر ہوئیں۔
اُردو ادب میں تقریباً آٹھ کتب کی مصنفہ ہیں جس میں اردو افسانہ نگاری کے رجحانات، خوابوں کی بستی، آخری ٹرین(افسانے)، اردو کے افسانوی اسالیب، اردو قدیم شاعری، اردو نثر کے اسلوب اور زیر تبصرہ کتاب ’’اردو ادب کے مختلف زاویے‘‘ شامل ہیں۔
ڈاکٹر فردوس انور قاضی صاحبہ کو بلوچستان یونیورسٹی سے پہلی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اپنی تصنیفات کے حوالے سے ڈاکٹر فردوس انور قاضی لکھتی ہیں کہ 
’’جہاں تک میری تخلیقات یا کتابوں کا تعلق ہے۔ ان کی تعداد اتنی نہیں ہے جتنی ممکن تھی۔ خصوصاً اردو افسانہ نگاری کی صنف میں اتنا کام نہیں کر سکی جو ایک پیدائشی تخلیق کار کو کرنا چاہیے اس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔‘‘
افسانہ نگاری ڈاکٹر فردوس انور قاضی کا خاص موضوع ہے۔ اسی کے تحت ہی انہوں نے ’’اردو افسانہ نگاری کے رجحانات‘‘ پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ڈاکٹر فردوس انور قاضی اول و آخر پاکستانی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں پاکستانیت اور وطن کی محبت بھرپور انداز میں جھلکتی ہے۔ جب مسائل کا حل نہ ہوتا دکھائی دے تو ڈاکٹر فردوس انور قاضی اس پر کڑھتی ہیں مثلاً زیر نظر کتاب کے صفحہ402پر لکھتی ہیں۔
’’اس حقیقت تک رسائی کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کیا اس عہد کے ادیبوں اور شاعروں کو ان مشترکہ مسائل کا علم ہے جو آج قوم کو درپیش ہیں۔ اگر ہے تو کیا وہ ان اجتماعی مسائل کے بارے میں سوچتے ہیں؟اگر سوچتے نہیں تو اس سوچ نے کسی کے دل میں قوم کے درد کو جگایا؟‘‘
’’اردو ادب کے مختلف زاویے‘‘ کا انتساب مصنفہ نے اپنی ماں کے نام کیا ہے جنھیں انہوں نے ہمیشہ زندگی کے مشکل ترین حالات میں بھی صبر، ہمت اور حوصلے کی روشن مثال دیکھا ہے۔
کتاب انتہائی خوبصورت کاغذ کے ساتھ مجلد الحمد پبلی کیشنز لاہور سے شائع کی گئی ہے ۔

مزیدخبریں