تحریر : میاں افتخار احمد
panah786@gmail.com
دنیا بھر میں تعلیم یافتہ افراد کی تعداد میں اضافہ اور ملازمتوں کی کمی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے مگر پاکستان میں یہ صورت حال زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ ملک میں ہر سال ہزاروں نوجوان جامعات سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، لیکن ان کے لیے ملازمت کے مواقع محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تعلیم اور روزگار کے درمیان ایک بڑا خلا موجود ہے۔گزشتہ دو دہائیوں میں دنیا بھر میں تعلیمی مواقع میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں بھی شرح خواندگی میں اضافہ ہوا ہے، اور اب یونیورسٹیوں میں داخلے کی شرح ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان میں بھی سرکاری اور نجی جامعات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے افراد کی تعداد بڑھی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ملازمتوں کے مواقع میں اضافہ نہیں ہوا، جس سے بے روزگاری میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔تعلیم یافتہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ معیشت میں بھی اسی حساب سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہو رہا۔ ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ، برطانیہ، جرمنی، اور کینیڈا میں بھی بے روزگاری ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ ان ممالک میں مصنوعی ذہانت (AI)، آٹومیشن، اور ٹیکنالوجی کے انقلاب نے کئی ملازمتوں کو ختم کر دیا ہے اور ان کی جگہ مشینوں نے لے لی ہے۔ دوسری طرف، ترقی پذیر ممالک میں اقتصادی مشکلات، سرمایہ کاری کی کمی، اور سیاسی عدم استحکام بھی ملازمتوں کے بحران کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔ اس صورت حال کی ایک وجہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ افراد کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ ملازمتوں کی تعداد میں متناسب اضافہ نہیں ہو رہا۔ مزید برآں تعلیمی نظام اور ملازمتوں کی ضروریات کے درمیان مطابقت کا فقدان بھی اس مسئلے کو بڑھا رہا ہے۔ بہت سے نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود عملی مہارتوں سے محروم ہوتے ہیں جو ملازمت کے حصول کے لیے ضروری ہیں۔یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں بھی تعلیم یافتہ افراد کو ملازمت کے مسائل کا سامنا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، اور دیگر یورپی ممالک میں بھی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل افراد کو نوکریاں ملنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، کیونکہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث کئی روایتی ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں۔ مزید برآں، کمپنیاں اب تجربے اور مہارت کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں، جس کی وجہ سے صرف ڈگری ہونا کافی نہیں رہتا۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک رپورٹ کے مطابق، ملک میں ڈگری یافتہ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 31 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جس میں پروفیشنل ڈگری رکھنے والے نوجوان بھی شامل ہیں۔ تعلیم یافتہ بے روزگاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا ایک سبب یہ ہے کہ ہر سال ہزاروں نوجوان یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، لیکن ملکی معیشت ان کے لیے مناسب ملازمتیں پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ملازمت کی تلاش میں بیرونِ ملک جانے پر مجبور ہے۔ اقتصادی سروے 2023 کے مطابق، 2022 کے مقابلے میں 2023 میں بہتر روزگار کی تلاش میں بیرونِ ملک جانے والے ہنرمند اور تعلیم یافتہ افراد کی تعداد میں 119 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ چین جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمت کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، چین میں فزکس میں ماسٹرز کرنے والے افراد مستری کا کام کر رہے ہیں، جبکہ ماحولیاتی منصوبہ بندی میں گریجویٹ صفائی کے کام پر مامور ہیں۔ دنیا بھر میں تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ ایک نیا چیلنج بھی سامنے ا? رہا ہے۔ تعلیم یافتہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ملازمتوں کی کمی، جہاں ایک طرف تعلیمی ادارے ہر سال لاکھوں گریجویٹس تیار کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف عالمی معیشت میں اتنی تیزی سے ملازمتوں میں اضافہ نہیں ہو رہا، جس کے نتیجے میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک، دونوں اس چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں، مگر ان کے حالات اور اس مسئلے سے نمٹنے کے طریقے مختلف ہیں۔پاکستان کا ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے ساتھ اگر تقابل کرتے ہیں تو ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ، برطانیہ اور جرمنی میں بے روزگاری کی شرح نسبتاً کم ہے کیونکہ ان ممالک میں صنعتی ترقی، ٹیکنالوجی اور سروس سیکٹر میں مسلسل وسعت ا? رہی ہے۔ ان ممالک میں ہنر مند اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل افراد کو بہتر مواقع میسر ہوتے ہیں، مگر اس کے باوجود یہاں بھی ہرتعلیم یافتہ فرد کے لیے ملازمت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔اس کے برعکس، ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور نائجیریا میں یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہے۔ پاکستان میں ہر سال ہزاروں نوجوان یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، مگر معیشت میں ان کے لیے مناسب تعداد میں ملازمتیں موجود نہیں ہوتیں۔ اس کی بنیادی وجوہات میں صنعتی ترقی کی کمی، کمزور معیشت، نجی شعبے میں سرمایہ کاری کا فقدان اور حکومتی سطح پر موثر پالیسیوں کی کمی شامل ہیں۔تعلیم یافتہ افراد اور ترقی یافتہ ممالک میں ملازمت کے مواقع ، کئی ترقی پذیر ممالک کے تعلیم یافتہ نوجوان ترقی یافتہ ممالک میں ملازمت کے مواقع تلاش کرتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک بھی ہر کسی کو ملازمت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی اور آٹومیشن کے باعث ترقی یافتہ ممالک میں بھی ملازمتوں کی نوعیت بدل رہی ہے اور وہ صرف انہی افراد کو مواقع فراہم کرتے ہیں جو جدید مہارتوں سے آراستہ ہوں۔ اس کے علاوہ، امیگریشن قوانین اور دیگر پابندیاں بھی غیر ملکی تعلیم یافتہ افراد کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہیں۔اس صورت حال کا بہترین حل یہ ہے کہ تعلیمی نظام کو عملی مہارتوں اور انٹرپرینیورشپ کی طرف موڑا جائے تاکہ نوجوان ملازمتوں پر انحصار کرنے کے بجائے خود روزگار کے مواقع پیدا کر سکیں۔ تعلیمی نظام کو عملی مہارتوں اور ہنر مندی پر مبنی بنایا جائے۔ اسکولوں کی سطح پر ہی نوجوانوں کو ہنر سیکھنے کی ترغیب دی جائے تاکہ وہ مستقبل میں خود روزگار کے قابل ہو سکیں۔ اس کے علاوہ، حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی شعبے کو فروغ دے کر نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرے اور نوجوانوں کو خود کا کاروبار شروع کرنے میں مدد فراہم کرے۔پاکستان میں بے روزگاری کا مسئلہ زیادہ شدید ہے کیونکہ یہاں صنعتی ترقی محدود ہے اور معیشت زیادہ تر زرعی شعبے پر منحصر ہے۔ اس کے برعکس، ترقی یافتہ ممالک میں بھی بے روزگاری موجود ہے لیکن وہاں نئی ٹیکنالوجیز اور کاروباری مواقع کی زیادہ فراہمی کی وجہ سے لوگ جلد از جلد روزگار حاصل کر لیتے ہیں۔ مزید برآں، ترقی یافتہ ممالک میں فری لانسنگ، اسٹارٹ اپ کلچر اور انٹرپرینیورشپ کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں، جو تعلیم یافتہ افراد کو خود کفیل بننے میں مدد دیتے ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی ترقی پر توجہ دے، سرمایہ کاری میں اضافہ کرے اور ہنرمند افراد کے لیے معاون پالیسیز متعارف کرائے۔ اسی طرح، جدید ڈیجیٹل اسکلز، فری لانسنگ اور کاروباری رجحان کو فروغ دینا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔مجموعی طور پر، تعلیم یافتہ بے روزگاری کا مسئلہ ایک پیچیدہ چیلنج ہے جو تعلیم، معیشت اور معاشرتی پالیسیوں میں جامع اصلاحات کا متقاضی ہے۔ صرف تعلیم کی فراہمی کافی نہیں؛ اس تعلیم کو عملی مہارتوں اور مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق ڈھالنا بھی ضروری ہے تاکہ نوجوانوں کو باعزت روزگار کے مواقع میسر آ سکیں۔اگر پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک اس چیلنج کا مؤثر حل نکالنے میں کامیاب ہو جائیں تو نہ صرف بے روزگاری کی شرح میں کمی آئے گی بلکہ ملک کی معیشت بھی مضبوط ہوگی، جو طویل مدتی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔اصل بات یہ سمجھنے کی ہے کہ تعلیم اور روزگار کے درمیان خلا ء کیوں ہے۔پاکستان میں تعلیمی نصاب اور روزگار کی ضروریات کے درمیان واضح فرق ہے۔ زیادہ تر جامعات میں جو تعلیم دی جاتی ہے، وہ عملی مہارتوں پر مبنی نہیں ہوتی، جس کے باعث فارغ التحصیل نوجوانوں کو مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق ملازمتیں حاصل کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے نوجوان نوکری کے بجائے کاروبار یا فری لانسنگ کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔پاکستان میں ہر سال لاکھوں طلبہ یونیورسٹیوں اور کالجوں سے فارغ التحصیل ہو رہے ہیں، لیکن ان کے لیے ملازمتیں موجود نہیں ہیں۔ اس کی چند بڑی وجوہات درج ذیل ہیں:تعلیم اور مارکیٹ کی ضروریات میں خلا: پاکستان میں تعلیمی نصاب زیادہ تر پرانے اور روایتی طریقوں پر مبنی ہے جو جدید مارکیٹ کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔ نتیجتاً، فارغ التحصیل افراد وہ مہارتیں حاصل نہیں کر پاتے جو آج کے دور میں ملازمتوں کے لیے ضروری ہیں۔
معاشی بدحالی اور سرمایہ کاری کی کمی: معاشی عدم استحکام اور غیر یقینی حالات کی وجہ سے پاکستان میں صنعتی اور تجارتی شعبے اتنی ترقی نہیں کر رہے کہ زیادہ سے زیادہ ملازمتیں پیدا کی جا سکیں۔حکومتی پالیسیوں کی عدم فعالیت: پاکستان میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے مناسب پالیسی سازی نہیں کی جا رہی۔ سرکاری شعبے میں نوکریوں کی تعداد محدود ہے جبکہ نجی شعبہ بھی غیر مستحکم ہے۔فری لانسنگ اور خود روزگاری کے مواقع: اگرچہ پاکستان میں فری لانسنگ اور سٹارٹ اپ کلچر بڑھ رہا ہے، لیکن اسے اب بھی وہ حکومتی سرپرستی حاصل نہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں دی جا رہی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں بھی بے روزگاری ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہو سکتی ہیں۔ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا استعمال: روبوٹس اور مصنوعی ذہانت نے کئی ملازمتیں ختم کر دی ہیں۔آبادی میں اضافہ: تعلیم یافتہ افراد کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے روزگار کے مقابلے میں زیادہ سختی پیدا ہو گئی ہے۔مہارتوں میں تبدیلی: ترقی یافتہ ممالک میں نئی ٹیکنالوجیز کے باعث ملازمتوں کے تقاضے بدل گئے ہیں، لیکن کئی لوگ ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ نہیں ہو سکے۔میری سوچ اور تجربے کے مطابق اس کے ممکنہ حل یہ ہیں کہتعلیم اور صنعت کے درمیان ہم آہنگی ہو۔ تعلیمی نصاب کو صنعتوں کی ضروریات کے مطابق بنایا جائے تاکہ فارغ التحصیل افراد براہ راست مارکیٹ میں جا کر کام کر سکیں۔کاروبار اور انٹرپرینیورشپ کو فروغ دینا: حکومت کو نوجوانوں کے لیے اسٹارٹ اپس، کاروباری قرضے، اور دیگر مواقع فراہم کرنے چاہئیں تاکہ وہ خود روزگار حاصل کر سکیں۔ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم: روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر مندی پر مبنی تعلیم کو بھی فروغ دینا چاہیے تاکہ نوجوان صرف نوکری کے انتظار میں نہ رہیں بلکہ اپنے ہنر کی بنیاد پر خود روزگار حاصل کریں۔ڈیجیٹل معیشت کا فروغ: پاکستان میں فری لانسنگ اور آن لائن کام کے مواقع میں اضافہ ہو رہا ہے، حکومت اور تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کو ڈیجیٹل اسکلز سکھائیں تاکہ وہ عالمی مارکیٹ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں۔صنعتی ترقی میں اضافہ: حکومت کو صنعتوں کے فروغ کے لیے بہتر پالیسیز بنانی چاہئیں تاکہ ملک میں زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکیں۔تعلیم کو عملی مہارتوں سے جوڑنا: پاکستان میں تعلیم کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا تاکہ طلبہ مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق مہارتیں حاصل کر سکیں۔کاروبار اور سٹارٹ اپ کلچر کو فروغ دینا: حکومت کو ایسے مواقع فراہم کرنے ہوں گے جہاں نوجوان خود روزگار حاصل کر سکیں۔سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنا: غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرکے اور ملکی صنعتوں کو مضبوط بنا کر روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں۔فنی تعلیم اور ووکیشنل ٹریننگ: پاکستان میں فنی تعلیم کو فروغ دینا بے روزگاری کے خاتمے میں مدد دے سکتا ہے۔تعلیم یافتہ افراد کی تعداد میں اضافے کے باوجود ملازمتوں کی کمی ایک عالمی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہے کیونکہ معیشت کی کمزوری اور صنعتی ترقی کی کمی کے باعث ملازمتوں کے مواقع محدود ہیں۔ اگر حکومت اور نجی شعبہ مل کر تعلیمی اصلاحات، صنعتی ترقی اور ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دیں تو یہ مسئلہ کم کیا جا سکتا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو محض نوکریوں پر انحصار کرنے کے بجائے خود روزگار اور ہنر مندی کی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ نہ صرف اپنی زندگی بہتر بنا سکیں بلکہ ملک کی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کر سکیں۔تعلیم کا فروغ ضروری ہے لیکن یہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ تعلیم یافتہ افراد کو روزگار کے مواقع میسر ہوں۔ ترقی یافتہ ممالک بھی اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے جدید حکمت عملی اپنا رہے ہیں جبکہ پاکستان کو بھی اپنی تعلیمی پالیسیوں کو بہتر بنانے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے پر توجہ دینی ہوگی۔ اگر حکومت، نجی شعبہ اور تعلیمی ادارے مل کر کام کریں تو پاکستان میں بھی تعلیم یافتہ افراد کے لیے بہتر مستقبل ممکن ہو سکتا ہے۔