باوجود کہ اس وقت پاک بھارت تجارت میڈیا پر ایک اہم بحث بنی ہوئی ہے، یہ کوئی نیا موضوع نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاک بھارت تجارت ہمیشہ سے ضرورت اور معیشت کے ساتھ ساتھ سیاست کے ساتھ بھی نتھی رہی ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں کچھ ایسے معاشی اور سیاسی ماہرین ہیں جو پاک بھارت تجارت کو پاکستان کے لیے فائدہ منداور پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کے اہم ذریعہ بتاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ تجارت کی بدولت پاک بھارت تعلقات میں بہتری آنے کے ساتھ ساتھ تمام مسائل کا حل بذریعہ بات چیت نکل آئے گا۔ یہ در اصل بھارتی خواہش ہے جس کا اظہار انکی حکومت کے بہت سے ذمہ داران گزشتہ دہائیوں میں کئی بار کر چکے ہیں۔ اگر ہم سیاست اور کشمیر کو بالائے طاق رکھ کر بھی دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جلد بازی میں اور بھارتی روڈ میپ کے مطابق تجارت کی بحالی اور اس میں فوری اضافے کی کوششوں کے تنائج کسی بھی طرح پاکستان کی معیشت ، صنعت اور زراعت کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتے۔ اس وقت بھی پلوامہ ڈرامہ کے بعد سے بھارت نے پاکستان سے تمام درآمدات پر دو سو فیصد ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے۔ ان حالات میں آپ بھارتی مصنوعات خرید کر بھارت کی کی معیشت کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار تو ادا کریں گے، لیکن دو سو فیصد ڈیوٹی کی موجودگی میں پاکستان بھارت کو کیا برآمد کر سکے گا؟
اس کے ساتھ ساتھ یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ بھارت واقعی پاکستان کے ساتھ تنازعات کے حل اور بہتر تعلقات کا خواہاں ہے یا وہ پاکستان کو یہ لالچ دے کر کچھ اور سیاسی اور سفارتی مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیںکہ بھارت دراصل یہ چاہتا ہے کہ بظاہر پاکستان کے ساتھ تجارت اور بات چیت شروع کر دے اور اسکا اصل مقصد یہ ہو کہ اس نے آرٹیکل 370 کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس پر وقت کی گرد پڑ جائے۔ اگر ہمیں پاک بھارت تعلقات میں واقعی پائیدار امن کی تلاش ہے تو اس کا راستہ تجارت نہیں بلکہ اصل حل طلب مسائل پر سنجیدہ بات چیت ہے جس کے ذریعے سے ان مسائل کا کوئی ایسا حل تلاش کیا جا سکے جو دونوں ممالک اور کشمیر کے عوام کے لیے قابل قبول ہو۔
ہمارے ملک کی ایک لابی اس بات کا پرچار کرتی ہے کہ اگر پاک بھارت تجارت اس حد تک پہنچ جائے کہ دونوں ممالک کے عوام اور معیشت ایک دوسرے پر انحصار کرنے لگ جائیں تو یہ ممالک اس امر پر مجبور ہو جائیں گے کہ ایک دوسرے کے خلاف کوئی اقدام یا ایک دوسرے سے کوئی مطالبہ نہ کر سکیں ۔ یعنی بھارت پاکستان کی معاشی مجبوری بن جائے اوربھارتی عوام اور بھارتی معیشت پاکستان پر انحصار کرنے لگ جائے۔ فرض کریں کہ ایک دوسرے پر یہ انحصار اس حد تک ہو ہی جائے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے کوئی مطالبہ یا اس کے لیے کوئی اقدام نہ کر سکیں تو بھی کیا ہو گا؟ بھارت تو خوشی سے یہ صورتحال قبول کر لے گا کیونکہ پاکستان نہ تو کسی بھارتی علاقے پر قابض ہے اور نہ کسی بھارتی دریا کا پانی روک رہا ہے۔ سوال تو ان اقدامات کو واپس لینے کا ہے جو بھارت کشمیر، کشمیری عوام اور پاکستان کے خلاف اٹھا چکا ہے۔ان کا کیا ہو گا؟َپاکستان کو کیا ملے گا ؟ پاکستان نہ تو کشمیر پر بات کر سکے گا اور نہ بھارت سے یہ مطالبہ کرنے کی پوزیشن میں ہوگا کہ بھارت پاکستانی دریائوں کے پانی پر ناجائز قبضہ نہ کرے۔ نہ ہم بلوچستان میں بھارتی در اندازی کے بارے میںکوئی بات کریں گے، کیونکہ تجارت ہو رہی ہو گی ۔ اگر یہ سب ممکن ہو بھی جائے تو کیا اسے امن کہا جا سکے گا؟ یہ امن کی بات ہو رہی ہے یا دشمن کے آگے ہتھیار ڈالنے کی؟ اسی طرح کچھ خود ساختہ اور ’’ٹن‘‘ دانشوروں کی ایسی تحریریں بھی نظر سے گزری ہیں جن میں انھوں نے کشمیر کے دونوں اطراف کی آبادی کو غربت کی درد انگیز تصویر کھینچتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر تجارت کو انکی کی روزی روٹی کے لیے لازم قرار دیا ہے۔ جموں کشمیر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہے۔ ( لداخ وغیرہ کے علاقے اسکے علاوہ ہیں)۔ اتنی بڑی آبادی میں سے کتنے سرحد پر تجارت میں مزدوری کرتے ہیں؟ دوسرا ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ غلامی اور جیل کی آسان روٹی بہتر ہے یا آزادی کی روکھی سوکھی روٹی؟
اگر کشمیر، سیاہ چین ، سرکریک ، ولر بیراج اور سندھ بلوچستان سمیت تمام پاکستان میں ہونے والی بھارتی در اندازی ( حکومتی یا کسی بھی سطح پر) کے بارے میں بات کرنے کی بجائے کرکٹ اور تجارت پر بات چیت ہونی ہے تو یہ بھارت کی سفارتی فتح تو ہو گی لیکن اس سے پاکستان کے کونسے مسائل حل ہونگے ؟
جب پاک بھارت تجارت کی بات ہوتی ہے تو بھارتی حکومت اور پاکستان میں موجود بھارت نواز لابی کی جانب سے ایک ’’ چھوٹا سا معصوم مطالبہ‘‘ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ دونو ں ممالک کے درمیان ’’ ٹرانزٹ ٹریڈ‘‘ یعنی تجارت کے لیے ایک دوسرے کو راہداری دینے کا معاہدہ بھی ہونا چاہئیے۔ بھارت کے پاس سمندر اور بندرگاہوں کی کمی نہیں ہے اس لیے اسے پاکستان کے راستے سمندری تجارت کی تو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ واحد اہم ملک جس سے بھارت کا سمندری یا زمینی رابطہ نہیں ہے وہ ہے افغانستان۔ ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ کرنے سے بھارت کا یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ افغانستان سے تجارت تو صرف ایک بہانہ ہے۔ ورنہ افغانستان کے راستے بھارت کے پاکستان کے بارے میں کیا عزائم ہیں، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ اس پس منظر، ان حالات میں اور ا س وقت پاکستان میں بھارت سے تجارت کا سوال اٹھنا یا اس پر بات کرنا بھی مناسب ہے؟
موجودہ وقت میں پاک بھارت تجارت !
Apr 05, 2021