پیر ‘ 21شعبان المعظم 1442ھ‘ 5؍ اپریل2021ء
حکومت نے بجلی خسارے پر فوری قابو پانے کی منصوبہ بندی کر لی
حکومتی منصوبہ سازوں کے نزدیک بجلی کے خسارے پر قابو پانے کا سب سے اہم طریقہ یہ ہے کہ نادہندگان سے وصولیاں تیز کی جائیں۔ اس ضمن میں پاور ڈویژن نے بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو اپنی وصولیاں تیز اور بہتر بنانے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ خدا کرے سب کچھ حکومتی منصوبہ سازوں کی مرضی کے مطابق ہو۔ بس ایک بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ کیا خود پاور ڈویژن اور بجلی کی تقسیم اور وصولی کرنے والی کمپنیوں کے کارندے اس مہم کو کامیاب ہونے دیں گے۔ ان کی مہربانیوں اور بھرپور تعاون کی وجہ سے ہی وصولیوں کاسلسلہ ٹھپ ہے یا سست پڑا ہوا ہے۔ بجلی چوری بھی انہی کی مہربانی سے ہوتی ہے۔ ہر ماہ لاکھوں بجلی چور صارفین کروڑوں نہیں اربوں کی بجلی چوری کرتے ہیں۔ یہ ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔ اب حکومت کی طرف سے وصولی کرنے کے لیے
اٹھ باندھ کرکیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
کا نعرہ مستانہ جو لگایا گیا ہے۔ اس کا مثبت اثر تباہی سامنے لاسکتا ہے جب واقعی کروڑوں کے بے شمار نادہندگان سے یہ بڑی بڑی رقوم نکلوائی جائیں گی۔ چند ہزار روپے والے بے شمار نادہندگان بھی ہوں گے صرف ان پر تازیانے برسانے سے کچھ نہیں ہو گا۔ یہ جو بڑے بڑے سرمایہ دار کارخانے دار ، محلات کے رہائشی ، فیکٹری مالکان ، بجلی چوری کے علاوہ واجبات کی ادائیگی میں بھی ڈنڈی مارتے ہیں۔ اربوں کی ریکوری ان سے ہونی ہے۔ ان پر آہنی ہاتھ ڈالنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ بجلی کے ضیاع کو روکنے اور بجلی کے بوسیدہ نظام فراہمی کو بھی بہتر بنایا جائے تو رنگ اور بھی چوکھا آ سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
گیلانی کی کامیابی عمران کی طرح لیگی دوستوں کو بھی ہضم نہیں ہو رہی: بلاول
ایک تو پہلے ہی پیپلزپارٹی کی دو رخی کہہ لیں یا دوغلی پالیسی کی بدولت پی ڈی ایم کا ’’بولو رام‘‘ ہو چکا ہے۔ اب جو بچی کھچی نشانیاں باقی رہ گئی ہیں‘ ان کو بلاول زرداری ڈھانے پر کمربستہ ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ یہ سب غارت گری اصلاح اور تعمیر کے نام پر کر رہے ہیں۔ ایسا سلوک تو دشمن بھی نہیں کر سکے جو پی پی نے پی ڈی ایم سے کیا ہے۔ اس پر شرمندگی کی بجائے بلاول زرداری کسی کھلنڈرے لڑکے کی طرح ٹھٹھول کرتے پھرتے ہیں۔ گیلانی کی کامیابی پر سچ کہیں تو پی ڈی ایم‘ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ خود پیپلزپارٹی کے بہت سے لوگ بھی خوش نہیں مگر خاموش ہیں۔ شاید اسی وجہ سے مسلم لیگی رہنما رانا ثناء اللہ اور احسن اقبال ابھی تک بلاول اور پیپلزپارٹی پر برس رہے ہیں کہ ’’پی پی کی بے اصولی معاف نہیں کی جائے گی اور وہ عملاً پی ڈی ایم چھوڑ چکی ہے۔‘‘ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس بے کار بے جان لاشے کا بوجھ اٹھانا چہ معنی دارد۔ ساحر لدھیانوی نے کیا خوب کہا تھا یہ مصرعہ موجودہ حالات پر صادق آتا ہے۔ ’’تعلق بوجھ بن جائے تو اس کا توڑنا اچھا‘‘ اگر پی پی حکومت سے پس پشت ہاتھ ملا چکی ہے تو اسے مزید وقت دینا کیسا۔ مولانا فضل الرحمن آج کل بیمار ہیں۔ ان کی صحت یابی کے بعد شاید وہ اس بارے میں کوئی کڑوا یا میٹھا فیصلہ کر سکیں۔ فی الحال تو آصف زرداری میٹھے میٹھے ٹیلیفون کرکے مولانا کا دل موم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ غالباً اسی وجہ سے پیپلزپارٹی نے سی ای سی کا اجلاس بھی غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا ہے اور کہہ دیا گیا ہے جو فیصلہ ہونا تھا‘ اس سے پی ڈی ایم والوں کو پہلے ہی مطلع کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد باقی کیا رہ جاتا ہے اپوزیشن اتحاد کو ٹوٹنے سے بچانے کیلئے۔
٭٭٭٭٭
لاہور میں صفائی کا کام سست روی کا شکار‘ گندگی کے ڈھیر لگ گئے
وزیراعلیٰ پنجاب کی تنبیہ‘ صوبائی وزراء کی تمام تر بھاگ دوڑ کے باوجود نجانے کیا وجہ ہے کہ لاہور میں صفائی کی صورتحال بد سے بدتر ہو رہی ہے۔صوبائی وزراء کی آمد پر ایک آدھ دن ہلچل مچتی ہے مگر پھر وہی ’’چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات‘‘ والا معاملہ سامنے آتا ہے۔ کہیں سے آواز آتی ہے کہ صفائی کی ذمہ دار ترک کمپنی کے ساتھ معاہدے پر معاملہ التوا کا شکار ہے۔ کوئی کچھ اور فسانہ سناتا ہے۔ صفائی کا عملہ اطمینان سے اس افراتفری کی صورتحال میں مزہ لوٹ رہا ہے۔ ہاتھ میں جھاڑو پکڑ کر ٹھیکیدار آکر فوٹو کھینچ کر ’’صفائی ہو رہی ہے‘‘ کی رپورٹ پیش کرتا ہے۔ عملاً ایک تنکا بھی اٹھایا نہیں جاتا۔ ساری گندگی کچرا وہیں پڑا رہتا ہے جو آہستہ آہستہ پہاڑ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کی وجہ سے نالیاں اور نالے بند ہو جاتے ہیں۔ ہر چوک کچرا دان بنا نظر آتا ہے۔ سڑکوں پر کچرا اور گندے شاپر اڑتے پھرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے سارے لاہور میں کسی نے کچرا پھیلا دیا ہے۔ گردوغبار کے ساتھ مل کر یہ کچرا گندگی اور بدبو شہریوں کا جینا محال کررہا ہے۔ لوگ مختلف وبائی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ’’کچھ علاج اس کا بھی’اے چارہ گراں ہے کہ نہیں‘‘ موسم بدل رہا ہے‘ گرمی آرہی ہے۔ اگر فوری تدارک نہیں کیا گیا تو حالات مزید ابتر ہو سکتے ہیں۔ بارش کی صورت میں تو جو حالات خراب ہونگے‘ اس کا فی الحال صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
رمضان سے پہلے عوام پریشان ۔ مافیاز کی عید ہو گئی ، سراج الحق
مافیاز کی تو ہر سال رمضان میں عید ہوتی ہے اور رمضان کی آمد سے قبل عوام پریشان ہوتے ہیں کیونکہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں دیکھتے ہی دیکھتے ان کی پہنچ سے بہت دور چلی جاتی ہیں۔ یوں ان کی زندگی میں رمضان سے قبل ہی روزہ طاری ہو جاتا ہے۔ اس بارے میں دو آرا نہیں۔ ہمارے ہاں مافیاز بہت طاقتور ہیں۔ کوئی بھی حکومت ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی۔ کیونکہ یہ چالاک مافیا ہر پارٹی کو سب سے بڑا فنڈز فراہم کرنے والا مرکز ہوتا ہے تو بھلا کون ایسا حکمران ہے جواپنی اے ٹی ایم مشین کو خراب کرے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب لوگ مسلمان ہیں۔ پانچ وقت نماز بھی ادا کرتے ہیں۔ روزے رکھتے اور تراویح بھی پڑھتے ہیں۔ ان مافیاز کی اکثریت الحاج بھی ہے۔ یوں خدا کا نام جپنے والے اس کے باوجود مخلوق خدا کی زندگیاں اجیرن بنانے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ رمضان ایثار کا مہینہ ہے۔ یہ بدبخت مافیاز اسے اذیت کا مہینہ بنا دیتے ہیں۔ اب سراج الحق نے مرض کی نشاندہی تو کر دی مگر اس کا کوئی علاج نہیں بتایا۔ کاش سراج الحق علاج بھی تجویز کرتے تاکہ اس ناقابل علاج مرض سے نجات مل سکتی۔ لگتا ہے ہمارے سیاستدانوں ، اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقات کا 80 فیصد عوام سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اب شاید تبدیلی کے لیے اس فرسودہ غریب دشمن نظام سے نجات کے لیے غریبوں کو خود کسی انقلاب کا اہتمام کرنا ہو گا۔ کہیں سے کوئی مسیحا ان کی مدد کو نہیں آئے گا۔ دنیا بھر کے انقلابات گواہ ہیں کہ یہ نچلے کچلے پسماندہ طبقات کی بدولت آئے۔ کیا سراج الحق کسی ایسے انقلاب کی قیادت کیلئے تیار ہیں۔
٭٭٭٭٭