کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا میں معمولات تباہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان حالات میں سب سے زیادہ تکلیف دہ اجتماعی عبادات کا سلسلہ منقطع ہونا ہے۔ بیت المقدس، بیت اللہ اور مسجد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے مناظر بھی دلوں کو ہلانے کے لیے کافی ہیں۔ لوگ بیت اللہ اور مسجد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے پرانے مناظر دیکھ کر رو رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی باجماعت نماز کے حوالے سے لوگوں میں خاصی بے چینی، اضطراب اور بے قراری پائی جاتی ہے۔ یہ بے چینی اس اعتبار سے ضرور حوصلہ افزا ہے کہ لوگ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونا چاہتے ہیں۔ خالق کائنات کے دربار میں حاضر ہونا چاہتے ہیں۔ قیام، و رکوع و سجود اور دعاؤں سے اللہ تعالی کو راضی کرنا چاہتے ہیں۔ نماز جمعہ کے حوالے سے لوگ زیادہ جذباتی ہیں یہ جذبات خالصتاً مذہبی اعتبار سے قابل قدر ہیں لیکن جب ہم بیت المقدس، خانہ کعبہ اور مسجد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ ضرور سمجھنا چاہیے کہ صرف پاکستان کو ہی مذہبی اعتبار سے اس عارضی سختی کا سامنا نہیں ہے بلکہ دنیا کے مقدس ترین مقامات پر بھی معمولات نہایت تکلیف دہ انداز میں متاثر ہوئے ہیں۔ اس لیے کرونا وائرس کی وجہ سے اس عارضی سختی یا بندش کو ہمیں وبائی مرض سے بچاؤ کے ذریعے کے طور پر ہی دیکھنا چاہیے۔ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے لیے دنیا بھر میں سختی سے عمل کروایا جا رہا ہے۔ بھاتی جرمانے ہیں اس کا مقصد صرف اور صرف انسانی جانوں کو بچانا اور جلد از جلد معمول کی زندگی کی طرف واپس لوٹنا ہے بدقسمتی سے ہمارے ہاں ابھی تک احتیاطی تدابیر کے حوالے سے اتنی سنجیدگی نہیں دکھائی جا رہی۔ جن لوگوں میں اتنا شعور نہیں ہے ان سے کیا گلہ کرنا ہے لیکن جہاں جہاں عقل والے موجود ہیں انہیں تو اس مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ ضرور کرنا چاہیے۔ ہم مختلف معاملات میں حکومت کو برا بھلا کہتے اور دل کھول کر تنقید کرتے ہیں لیکن عوامی سطح پر بھی ایسے واقعات ضرور ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے ہم ہیں ویسے ہمارے حکمران ہیں۔ حکومت نے چمن بارڈر کھولا ہے تو اسے تنقید کا سامنا ہے یہی غلطی ایرانی بارڈر کھول کر کی گئی وائرس کے پھیلاؤ میں تفتان بارڈر اور ہوائی اڈوں کی آمدورفت نے بڑا حصہ ڈالا انہی فیصلوں پر سپریم کورٹ میں حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ تو حکومتی سطح پر صرف دو مثالیں ہیں عوامی سطح پر دوزانہ سینکڑوں ہزاروں واقعات رونما ہوتے ہیں جن کی وجہ سے کرونا رکنے کے بجائے پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ حکومت کو برا بھلا کہتے ہوئے، حکمرانوں کا تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ہمیں اپنی طرف بھی ضرور دیکھنا چاہیے کی ہمارا اپنا کردار کیا ہے اور ہم خود کس حد تک داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں یقیناً عوام کی سطح پر بھی بیاحتیاطی کرونا کے پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے۔ مذہبی طبقے کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ تمام تر اقدامات صرف اور صرف عارضی اور جان و مال کے تحفظ کو دیکھتے ہوئے اٹھائے گئے ہیں لیکن ابھی تک وہ سنجیدگی نظر آتی جس کا حالات تقاضا کر رہے ہیں۔
کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں نماز جمعہ کا اجتماع منعقد کرنے پر پولیس کارروائی کے لیے پہنچی تو امام مسجد کے اْکسانے پر لوگوں نے پولیس پر حملہ کردیا۔ یہ اجتماع نماز جمعہ کی پابندی کے باوجود منعقد ہو رہا تھا۔ اس صورتحال میں ریاست کیا کر سکتی ہے یقیناً قانون حرکت میں آئے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرے۔ امام صاحب کے اکسانے کے بعد ہنگامہ آرائی میں دو پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ کیا امام صاحب کو ان حالات میں اسے اسلام پر حملہ سمجھنا چاہیے تھا اور کیا ان کے اکسانے کے بعد شہریوں نے جس ردعمل کا مظاہرہ کیا اس کم عقلی پر بھی افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ نماز جمعہ کے لیے پریشان پھرنے والوں کو دعوت ہے کرونا جے خاتمے کے بعد نماز فجر کے وقت مؤذن کہتا ہے کہ الصلوۃ خیر من النوم "نماز نیند سے بہتر ہے" ہم میں سے کتنے ہی لوگ اللہ کی پکار پر مسجد حاضر ہوتے ہیں اس وقت کوئی مظاہرہ کیوں نہیں ہوتا۔ اس وقت ہمارا جذبہ ایمانی کیوں نہیں تڑپتا، اس وقت ہمیں تکلیف کیوں نہیں ہوتی۔ جب فجر کے وقت اللہ کی طرف سے بلاوا آتا ہے تو ہم نیند میں رہتے ہیں اب ایک وائرس نے رکاوٹ کھڑی کی ہے تو ہم سے وہ برداشت نہیں ہو رہا۔ یہ صرف ایک جگہ کا مسئلہ نہیں ہے ہر دوسری جگہ ایسے ہی مسائل ہیں۔ ہم اپنی نمازیں گھروں میں ادا کر سکتے ہیں اگر ہمیں مساجد کا ذوق شوق ہے تو اللہ سے وعدہ کر لیں کہ کرونا سے جلد نجات ملے اور جب مسجد جانے کی آزادی ہو گی تو جہاں بھی ہوں گے جیسے ہوں گے سب کام چھوڑ کر باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد جائیں گے۔ دیکھئے گا حالات کیسے بدلتے ہیں۔
ہمارے معیار بھی بڑے عجیب ہیں جب مسجدیں کھلی رہتی تھیں اور ہمیں بلاتی رہتی تھیں ہم دنیا کی محبت میں اتنے مگن تھے کہ وقت ہی نہیں ملتا تھا اب تالے لگ رہے ہیں تو ہمیں مساجد کے بند ہونے کا دکھ کھائے جا رہا ہے۔ غیر جذباتی انداز میں حالات کو سمجھنے اور عمل کرنے کی کوشش کریں۔ ایمان مضبوط رکھیں اور استغفار کریں۔ جیسے ہم ہیں ویسے حکمران ہیں اگر ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تو حکمران بھی ہم میں سے ہی ہیں انکی طرف سے زمینی و فضائی راستے کھولنے پر بھی ہمیں زیادہ چیخ و پکار نہیں کرنی چاہیے۔ ایسے وقت میں جب ساری دنیا سماجی فاصلوں کی بات کر رہی ہے ہم ہر روز کہیں نہ کہیں نرمی کا اعلان کرتے ہیں۔ جب دنیا گھروں میں قید اور بارڈرز بند کیے بیٹھی ہے ہم ہر روز کوئی نیا راستہ ضرور کھولتے ہیں۔ ہمیں نیچے اوپر اور اوپر سے نیچے تک عقل، سمجھ اور شعور کے دروازے کھولنے کی ضرورت ہے۔ یہ بند دروازے کھلیں گے تو مسائل حل ہوں گے۔
ہم غیر معیاری ماسک، سینی ٹائزر اور دیگر چیزیں بیچ رہے ہیں، ذخیرہ اندوزی کر رہے ہیں، دوسروں کا حق مار رہے ہیں، ناجائز منافع کما رہے ہیں یہ ہم ہی ہیں کوئی اور نہیں ہے ہم میں سے ہر دوسرا شخص موقع ملنے کا منتظر ہے جسے موقع ملتا ہے وہ اپنے حصہ کی ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی کرنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتا۔
اسلام تو ہمیں مدد، تعاون صلی رحمی کا درس دیتا ہے۔ حکومت یہ ذہن میں رکھے کہ آنے والا وقت آج سے زیادہ مشکل ہو گا سیاستدانوں کو چاہیے کہ اپنے حلقوں میں رہیں اور عوام کی خدمت کریں زمینی حقیقت یہ ہے عوام اپنے سیاسی قائدین سے متنفر ہو رہے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38