بے شک تیرے رب کی پکڑ بہت شدید ہے۔(القرآن)۔۔۔ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم بے شک آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ جب ظالموں کو اپنے عذاب میں پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے اگرچہ یہ پکڑ کچھ عرصہ ظالموں کو مہلت دینے کے بعد ہو کیونکہ انہیں مہلت دینا عاجز ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ (روح البیان،)۔۔ اس آیت میں ہر اس شخص کے لئے نصیحت ہے جو لوگوں پر ظلم کرتا ہے کہ اگرچہ ابھی اللہ تعالیٰ نے اس کی پکڑ نہیں فرمائی لیکن جب بھی اللہ تعالیٰ نے اس کے ظلم کی وجہ سے اس کی گرفت فرمائی تو وہ بہت سخت ہو گی اور یہ گرفت دنیا میں بھی ہو سکتی ہے اور آخرت میں بھی۔ جیساکہ
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسولْ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اے لوگو! اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو،خدا کی قسم! جو مومن دوسرے مومن پر ظلم کرے گا توقیامت کے دن اللہ عَزَّوَجَلَّا اس ظالم سے انتقام لے گا۔( کنز العمال)۔۔۔ اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہْ تَعَالٰی وجہہ سے روایت ہے، سرورِ کائنات صَلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’مظلوم کی بد دعا سے بچو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی حقدار کو اس کے حق سے منع نہیں کرتا’’۔۔۔ریاکاری بھی شرک کی ایک قسم ہے اور شرک اللہ کے نزدیک سنگین ظلم ہے۔ریاکاری یعنی دکھلاوا ایک انتہائی مذموم عمل ہے- یہ گناہ اور اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے- لفظ ریا "روی" سے ماخوذ ہے جس کا معنی آنکھوں سے دیکھنے کا ہے- اس کی صورت یوں ہوتی ہے کہ انسان نیکی کا کوئی عمل کرتے وقت یہ ارادہ کرے کہ لوگ مجھے یہ عمل کرتے ہوئے دیکھ لیںاور میری تعریف کریں۔ کوئی مسلمان نیکی کا کوئی کام کرتے ہوئے دکھلاوے کی نیت کرے کہ لوگ اسے یہ عمل کرتے دیکھیں اور اس کی تعریف کریں- یہ پوشیدہ شرک ہے اور توحید کے اعلی درجہ کے منافی ہے-ریا والا عمل اللہ تعالی کے ہاں مقبول نہیں بلکہ وہ عمل کرنے والے کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے- جب کسی عبادت میں ریا شامل ہو (یعنی وہ عبادت محض ریا اور دکھلاوے کے لیے کی جائے) تو وہ ساری عبادت باطل ہوجاتی ہے اور وہ عمل کرنے والا دکھلاوے کی وجہ سے گناہگار اور شرک خفی کا مرتکب ہوتا ہے- ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا خوف مجھے تم پر دجال سے بھی زیادہ ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ (ضرور بتلائیے) آپ نے فرمایا: وہ ہے "شرک خفی" کہ کوئی شحص نماز کے لیے کھڑا ہو اور وہ اپنی نماز کو محض اس لیے سنوار کر پڑھے کہ کوئی شخص اسے دیکھ رہا ہے-( سنن ابی ماجہ) محمود بن لبیدسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' میںتمہاری بابت سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوںوہ چھوٹا شرک ہے صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹا شرک کیا ہے ؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ریاکاری ، قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو ریا کاروں سے اللہ تعالی کہے گا : ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کو دکھانے کے لئے تم دنیا میں اعمال کرتے تھے اوردیکھوکیا تم ان کے پاس کوئی صلہ پاتے ہو۔( مسند احمد)۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 152 میں رب العزت نے مومنین کو ہوس مال و زر سے متعلق خبردار فرمایا ہے کہ مشیت خداوندی یہ ہے کہ مسلمان دنیا میں رہتے ہوئے اور اللہ کی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے پروردگار کو نہ بھولے۔ کثرت مال کی ہوس اور غرور اللہ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ ہیں۔ آج کا مسلمان دنیا کی عارضی اور جھوٹی عزت، نام و نمود، آرام و آسائش اور لذات کے حصول میں اسقدر کھو چکا ہے کہ اپنے دائمی ٹھکانے اور لافانی اْخروی زندگی کوعملاً بھول چکا ہے۔اس دنیا کا حرص و لالچ ہمیں کھائے جا رہا ہے اور اس نے اپنے کریم مولا سے ہمیں دور کر دیا اور ہمیں مرنا بھلا دیا۔ آج دنیا کو ہم نے اپنا قبلہ و کعبہ بنا لیا ہے۔دنیاوی حرص و لالچ سے بچ کر اپنا تعلق اللہ سے جوڑناوقت کی اشد ضرورت ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم دنیا میں رہیں مگر دنیا ہمارے دل میں نہ رہے، اسکی چاہت اور ہوس ہمیں اپنے مولا سے دور نہ کر دے اور اسکی مصروفیات آخرت کو بھلانے کا باعث نہ بن جائیں۔ جھوٹ، بد دیانتی، چوری، ڈاکہ زنی، ملاوٹ اور دیگر اخلاقی گراوٹیں اور قدرتی آفات مصائب اسی وقت ظہور میں آتی ہیں جب انسان اپنے رب کو بھول جاتا ہے اور اسے یہ بھی بھول جاتا ہے کہ آخرت میں اسکی جوابدہی ہونی ہے، ہمیں اْخروی کامیابی کے لیے دنیا سے بے رغبتی اور اللہ تعالی سے تعلق جوڑنا ہوگا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024