پی ایس ایل چیمپئن کا فیصلہ میدان میں ہی ہونا چاہیے: وسیم خان
کراچی (اسپورٹس ڈیسک ) انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ( آئی سی سی) کے زیر اہتمام ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سمیت دیگر ایونٹس کے مستقبل کا فیصلہ21اپریل کو ہوگا ،آئی سی سی کے رکن ممالک ویڈیو کانفرنس کے ذریعے غور کریں گے، پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان کا کہنا ہے کہ اس موقع پر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ چیمپئن شپ سمیت مختلف مقابلوں کے متبادل پلان زیر بحث آئیں گے، ہر ملک کے الگ چیلنجز مگر مسائل اور مفادات یکساں ہیں،بھارت سے سیریز کے امکانات نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو نقصان کی تلافی کیلئے کسی میگا ایونٹ کی میزبانی ملنا چاہیے۔انٹرنیشنل کرکٹ کیلئے ہمارا کیس مزید مضبوط ہوگیا، 2023میں کوئی آئی سی سی ٹورنامنٹ کرانے کیلئے تیار ہیں،ملتان سلطانز تو چاہیں گے لیکن کوئی مذاق نہیں کہ ان کو ٹرافی سونپ دی جائے، پی ایس ایل کے چیمپئن کا فیصلہ میدان میں ہونا چاہیے ورنہ مزا نہیں آئے گا،سال کے آخر میں کوئی ونڈو تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں،لیگ میں نئی ٹیمیں شامل کرنے کا فیصلہ 2022میں کریں گے۔ای ایس پی این کی پوڈ کاسٹ میں پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے کہاکہ کورونا وائرس کی وجہ سے کرکٹ کی دنیا بھی ایک بحرانی صورتحال میں ہے، پاکستان سمیت تمام ملک اپنے طور پر ایسے متبادل پلان بنانے کی کوشش کررہے ہیں جس سے مالی نقصان کم سے کم ہو، آئی سی سی بھی اسی طرح کی سرگرمیاں اور سوچ بچار جاری رکھے ہوئے ہے۔چیف ایگزیکٹیوز کی ایک ویڈیو کانفرنس21 اپریل کو ہورہی ہے، اس میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ چیمپئن شپ سمیت مختلف مقابلوں کے متبادل پلان زیر بحث آئیں گے، ہر ملک کے اپنے چیلنجز مگر مسائل اور مفادات ایک جیسے ہیں، ممبر ملک آئی سی سی کی آمدنی پر انحصار کرتے ہیں،ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، پاکستان کو ستمبر میں ایشیا کپ کی میزبانی بھی کرنا ہے، ہم2023میں کوئی آئی سی سی ٹورنامنٹ کرانے کیلئے تیار ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم ٹیسٹ کرکٹ زیادہ کھیلنا چاہتے ہیں لیکن مالی استحکام کیلئے پیسہ بھی چاہیے۔اس لیے نظرثانی شدہ انٹرنیشنل شیڈول میں ہماری ان ضروریات کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے توازن برقرار رکھنا بہتر ہوگا۔ایک سوال پر سی ای او نے کہا کہ ہم پی ایس ایل میں نئی ٹیمیں شامل کرنے کا فیصلہ 2022میں کریں گے،فی الحال لیگ کو فرنچائزز کیلئے منافع بخش بنانے کی کوشش کررہے ہیں،ابھی کسی نئی ٹیم کو شامل کرنے سے دستیاب ریونیو کا مزید بٹوارہ ہوجائے گا، اس لیے کم از کم اگلے سال بھی اس تجربے سے گریز کرنا ہوگا۔