کو رو نا کا پھیلا ئو اور سے بچا ئو ؟

کورو نا ایک عا لمی وبا ء کے طور پر ساری د نیا میں تبا ہی مچا رہا ہے،تما م ممالک اپنی عوام کی حفا ظت کیلئے کو شش کر رہے ہیں ۔ہر فر د کی بھی ذ مہ داری ہے کہ و ہ اپنے آپ کو بچا نے کیلئے احتیا طی تد ابیر اختیار کر ے اس سلسلے میں عو ام کو مختلف مشورے دئیے جا رہے ہیں،کچھ مشورے یا ہد ایا ت یقینا بہت مفید اور کا ر آ مد ہیں کیو نکہ کچھ کا عام فہم ( common sense) یا عام سمجھ بو جھ کے معیا ر پر پو رے نہیں اُ تر تے! اب ہم کو رو نا کے پھیلا ئو اور اس سے بچا ئو کے طر یقوں کا جا ئز ہ لیتے ہیں…کو رو نا وائر س بیما ر انسا ن کی کھا نسی اور چھینک کے ذر یعے تھو ک کے چھو ٹے چھو ٹے ذرات کے ذریعے ہو امیں پھیل جا تا ہے اور پھر صحت مند انسا ن کے منہ ، نا ک اور آ نکھو ں کے ذر یعے جسم میں دا خل ہو کر بیما ری کا با عث بنتا ہے،اس طر ح ایک بیمار انسا ن سے کئی صحت مند افراد متا ثر ہو جا تے ہیں،اپنے آ پ کو بچا نے اور وائر س کو دو سر ے تک پھیلا نے سے بچا ئو کے جو طر یقے بتا ئے جا رہے ہیں وہ یہ ہیں۔ سب سے پہلا یہ ہے کہ بیمار شخص سے کم سے کم چار سے چھ فٹ کا فا صلہ ر کھیں بیما ر شخص ما سک لگا ئے اور کہا جا رہا ہے کہ صحت مند شخص کو ما سک لگا نے کی ضرورت نہیں اس کی منطق یہ بتا ئی جا رہی ہے کی چھینک یا کھا نسی سے خار ج ہو نے والے ذرات چار سے چھ فٹ کے فا صلے سے زیا دہ دور نہیں جا تے اور نیچے گر جا تے ہیں اس لیے اگر آ پ اس فا صلے سے دور ر ہیں تو یہ آ پ پر اثر انداز نہیں ہو سکتے،یہ با ت در ست ہے کہ یہ ذرا ت پا نچ سے چھ فٹ نیچے گر نے لگتے ہیں لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ آ پ ہر وقت دوسرے لو گو ں سے پا نچ چھ فٹ کا فا صلہ ر کھ سکیں ہمیں نہیں معلو م ہمارے ارد گر کو ن کو ن شخص اس بیماری میں مبتلا ہے گھر میں بھی ہر وقت دو سروں سے اتنا فا صلہ رکھنا ممکن نہیں۔ گھر سے با ہر اگر آ پ دوا یا کچھ اور خر ید نے گئے ہیں تو دوکاندار سے نہ آ پ کو ئی چیز چھ فٹ کے فا صلے سے لے سکتے ہیں اور نہ دے سکتے ہیں اس طر ح یہ تر کیب تقر یبا نا قا بل عمل ہے اس مشورے کا دوسرا کمزور پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ایک شخص کسی جگہ پر کھا نسی کر کے چلا جا ئے تو وائر س وہا ں دو تین گھنٹے ہو ا میں مو جو د ر ہتا ہے اور دوسرے افرا د وہا ں آکر بیٹھ سکتے ہیں یا گز ر سکتے ہیں جو جا نتے بھی نہیں کہ یہا ں پر کوئی بیمار شخص کھانستا رہا ہے اس طر ح یہ افراد وائر س سا نس کے ذر یعے اپنے پھپھٹروں میں لے جا ئینگے جو خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے ۔ اس لیے مشورہ یہ ہے کہ نہ صرف بیمار شخص بلکہ تما صحتمند افراد بھی ما سک کا استعما ل کر یں اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بہت سارے افردا ما سک صر ف منہ پر لگا لیتے ہیں اور نا ک کھلی ر کھتے ہیں یہ بھی در ست نہیں آپ نا ک سے سا نس لیتے ہیں اور اگر ہو ا میں وائر س ہے تو سیدھا پھیپھڑوں تک پہنچ سکتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ما سک سے منہ اور نا ک کو دو نو ں کو اچھی طر ح ڈ ھا نپ لیا جا ئے۔کرونا سے بچائو کا دوسرا مشورہ ہا تھو ں کے بار ے میں ہے کہا جا رہا ہے کہ کسی سے ہا تھ نہ ملائیں۔ ہا تھو ں کو بار بار د ھو ئیں یا سننٹیائزر کا استعما ل کر یں اور ہا تھ منہ ناک یا آ نکھو ں پر نہ لگا ئیں،ہا تھ نہ ملا ئیں مشورہ اس لیے نہیں دیا جار ہا کہ مر یض کے ہا تھو ں سے وائر س نکل رہا ہے ایسا کچھ نہیں ہے اس کی منطق یہ ہے کہ مر یض کے کھانسنے یا چھکنے سے جو ذرات ارد گر د کی اشیاء مثلا کر سی میز یاکتا ب وغیرہ پر گر تے ہیں ان میں وائر س کئی گھنٹے تک زندہ ر ہتا ہے اور اگر کو ئی بھی شخص ان چیز وں کو ہا تھ لگا تا ہے تو وائر اس کے ہا تھ پر چپک جا تے ہیں اب اگر یہ شخص کسی دوسرے سے ہا تھ ملاتا ہے تو وائر س اس کے ہا تھ تک بھی پہنچ جا تا ہے اور اس طر ح ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسر ے شخص تک پہنچ جا تے ہیں اب جن لو گو ں کے ہا تھو ں پر وائر س لگا ہو ا ہے اگر وہ اپنا ہا تھ نا ک منہ یاآ نکھو ں پر لگا ئیں تو وائر س جسم میں دا خل ہو کر بیماری کا باعث بن جا تا ہے۔ دو سروں سے ہا تھ نہ ملا نے کے مشورے تک بڑ ی حد تک عمل ہو رہا ہے اسی طر ح ہا تھ دھو نے پر بھی اکثر لو ک عمل کر رہے ہیںتا کہ اگر کہیں سے وائر س ہا تھ پر لگ گیا ہے تو صا ف ہو جا ئے اس کے لئے ضروری ہے ہا تھو ںکو صا بن سے بیس سکینڈ تک د ھو یا جا ئے ۔میرا مشورہ ہے کہ سینٹیائزر پر بھروسہ نہ کر یں کیو نکہ آ ج کل مار کیٹ میں جعلی یا دونمبر بھی آ چکے ہو ں گے۔ منہ ،نا ک ،اور آ نکھو ں پر ہا تھ نہ لگا نے کا مشورہ بھی با لکل جا ئز ہے کہ یہیں سے وائر س جسم میں دا خل ہو تا ہے لیکن د یکھا یہ گیا ہے کہ ہر انسا ن اکثر غیر ارادی طور پر کھجانے یا عادتا منہ اور نا ک کو دن میں کئی بار ہا تھ لگا لیتا ہے اور اس کو سو فیصد رو کنا شاید ممکن نہیں یہا ں بھی اگر ما سک لگا ہو گا تو وائر س سے بچا ئو ہو جا ئے گا۔ یو رب کے اکثر ممالک بر ی طر ح کورونا وائر س کی ذد میں ہیں لیکن چیکو سلاویہ ایسا ملک ہے جہا ں یہ وائر س زیا دہ نہیں پھیل سکا ۔ چند دن قبل ایک چینل پر وہا ں ایک خاتو ن بتا رہی تھیں کہ ہم نے دوسری تدابیر کے ساتھ ساتھ ما سک کو ہر شخص کیلئے لا زمی قرار دیا ہے ان کا کہنا تھا کہ کو رونا وائر س جسم میں جس را ستے سے دا خل ہوتا ہے اس کو بند رکھنا ہی سب سے کامیا ب طر یقہ ہے۔صدر مملکت ڈا کٹر عارف علو ی بھی کورونا کو روکنے میں متحر ک کردار ادا کر رہے ہیں انھو ں نے سب سے پہلے میڈ یا میں وائرس کے پھیلا ئو کو روکنے کی ہدایات کو اُ جا گر کیا وہ چین کی قیا دت سے اظہار یکجہتی کیلئے چین بھی تشر یف لے گئے جس کے نتیجے میں چین سے پاکستان کو اس سلسلے میں بڑ ی امداد ملنی شروع ہو گئی۔صدر مملکت نے جا معہ الازہر سے فتو ی حا صل کر کے اور علما ئے کرام سے ملاقات کر کے مذ ہبی اجتما عات پر پا بند ی کے لیے بڑا رو ل ادا کیا ہے، میری گذارش ہے کہ وہ میڈ یا میں چلنے والے ان مشوروں کو بندکروائیں جن میں صحت مند افراد کو ما سک نہ پہننے کا مشورہ دیا جا تا ہے،وہ متعلقہ ادروں کو مشورہ یا ہدایات دے کر اس با ت کو یقینی بنائیں کہ گھر سے با ہر کو ئی فرد بغیر ما سک کے نظر نہ آ ئے کو رو نا وبا ء کو پھلنے سے رو کنے کیلئے حکومتیں بھی کو شیش کر رہی ہیں۔سب سے بڑا اور مو ثر ہتھیار لا ک ڈائو ن کو سمجھا جارہا ہے، لا ک ڈا ئو ن کا مقصد اس با ت کا اہتمام کر نا ہے کہ لو گو ں کا آ پس میں میل جو ل کم سے کم کر دیا جا ئے تا کہ جو لو گ پہلی ہی وائر س کا شکار ہو چکے ہیں دو سرو ں تک بیما ری کو نہ پھیلا ئیں اسکے لیے تعلیمی ادارے،د فا تر، فیکٹر یا ں اور ٹرا نسپور ٹ وغیر ہ کو بند کر دیا گیا،شادی بیا ہ اور مذ ہبی اجتما عات پر پا بندی لگا دی گئی اور لو گو ں کو مشورہ دیا گیا کہ وہ گھرو ں پر ر ہیں اور بہت ہی ضروری کام کے بغیر با ہر نہ جا ئیں، شہریوں کی بڑ ی اکثر یت نے اس پر عمل کیالیکن کچھ لوگو ں نے مختلف وجو ہ کی بنا ء پر اس پر عمل کر نا ضروری نہ سمجھا اور نقصا ن اُ ٹھا یا،لا ک ڈائو ن کادو سر امقصد یہ ہے کی اس دو را ن کو رونا میں مبتلا ہو جا نے والوں کا پتہ لگا کران کو الگ کر دیا جا ئے،ان مقاصد میں کسی حد تک کا میا بی بھی حا صل ہو گئی تھی،وزیر اعظم پا کستان کے لا ک ڈا ئو ن کے با ر ے میں کچھ تحفظات ہیںجو با لکل بے بنیا د ہیں،ان کو خطر ہ ہے کہ لا ک ڈائون سے معیشت کو نا قا بل تلا فی نقصا ن ہو جائے گااور لوگ بھو ک سے مر نے لگیں گے جس کے نتیجے میں افر اتفری پھیل جا ئے گی جہا ں تک میعشت کے نقصا ن کی با ت ہے بالکل ممکن ہے اور نقصا ن ہو رہا ہے اسکو جس حد تک رو کا جا سکتا ہے حکو مت کو اقدا مات کر نے چا ہیں جہا ں تک لو گو ں کا بھو ک سے مر نے کا سو ال ہے ؟وزیر اعظم اطمینان ر کھیں پا کستا ن میں اتنے مخیر حضرات مو جو د ہیں وہ کسی کو بھو ک سے مر نے نہیں دینگے،ضرورت صرف اس با ت کی ہے کہ انکی کو ششوں کو مر بوط بنا یا جا ئے۔ مشورہ ہے کہ ہر علا قے کے ڈ پٹی کمشنر کو ذ مہ داری د یں کہ وہ مخیر حضرات ،این جی او اور ویلفیئر ٹر سٹ انتظامیہ کو بلا ئے اور انکی مر ضی کے مطا بق مختلف علا قوں میں را شن پہچا نے کی ذ مہ داری سو نپ د یں اس طر ح ایک علاقے میں ایک تنظیم کا م کر ے گی اور ایسا نہ ہو گا کہ ایک علاقے میں تو چار تنظیمو ں کی طرف سے را شن آ گیا اور دوسرے علا قہ میں کو ئی پہنچا ہی نہیں،یہ حضرات اور تنظمیں استطا عت کے مطا بق ضرورت مندو ں کو را شن پہنچا ہتی ر ہیں اور جب انکو ضرورت پڑ ے وہ حکو مت سے مد د لے لیں،لا ک ڈا ئو ن کی سختی کو آ ہستہ آ ہستہ کم کیا جا سکتا،اسکے لیے صرف دو اقدامات کی ضرورت ہے،اول زیا دہ سے زیا دہ لو گو ں کے ٹیسٹ کروا کے انکو الگ کر لیا جا ئے اور دوسرا شا ید اس سے بھی زیا دہ ضروری ہر شخص پر ما سک لگا نا ضروری کر دیا جا ئے،آخر میں میری لو گو ں سے در خو است ہے کہ وہ ما سک کا استعما ل ضرور کر یں،جب آ پ وائر س کے جسم میں دا خل ہو نے کا را ستہ بند کر دینگے تو یقینا وائر س سے بچے ر ہینگ