وائرس سے طبی عملے کی حفاظت اولین ترجیح!

کورونا وائرس یا Covid 19کے پھیلاؤ کے بعد عالمی ادارہ صحت (WHO)کی جانب سے جہاں عوام کو بہت سی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہا جا رہا ہے وہیں ڈاکٹروں اور طبی عملے کو دوران ڈیوٹی مخصوص لباس کا بندوبست اور اسے پہننے کی ہدایات دی گئی تھیں مگر پاکستان میں طبی عملے کو حفاظتی کٹس اور دیگر ساز و سامان بر وقت نہ مل سکا تاہم اب چین سے حفاظتی سامان کی ترسیل شروع ہو چکی ہے جو خوش آئند ہے مگر پھر بھی یہ سامان نا کافی ہے ۔پاکستان میں ینگ ڈاکٹرز (Young Doctors )نے مخصوص حفاظتی لباس دستیاب نہ ہونے کے باعث ہسپتالوں میں ڈیوٹی دینے سے بھی انکار کر دیا تھا جو اس مسئلہ کی حساسیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ طبی عملہ کی کرونا سے سیفٹی حکومت کی ترجیحات میں پہلے نمبر پر ہونی چاہیے۔ اس پرپوری توجہ نہ دینے کے نتیجے میں گلگت میں ہم ڈاکٹر اسامہ ریاض کی شکل میں انمول ڈاکٹر سے ہاتھ دھو چکے جبکہ اسلام آباد،لاہور،کراچی سمیت مختلف علاقوں میں ڈاکٹر اور طبی عملہ اس وائرس کا شکار ہو چکا ہے۔ ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملہ کے لئییہ حفاظتی سامان و لباس (Protective equipments)کتنا ضروری ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے دنیا بھر کی حکومتوں اور صنعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ طبی عملے کی ذاتی حفاظت کے ساز و سامان کی پیداوار میں 40 فیصد اضافہ کریں۔عالمی ادارہ صحت کی ترجمان فیڈیلا شیب کے مطابق ’دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کا علاج معالجہ کرنے والے افراد کو ہر مہینے آٹھ کروڑ 90 لاکھ ماسک، تین کروڑ گاؤن، ایک کروڑ 59 لاکھ مخصوص چشمے، سات کروڑ چھ لاکھ دستانے اور دو کروڑ 90 لاکھ لیٹر ہینڈ سینیٹائزر درکار ہوں گے۔‘پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کے علاج میں مصروف ڈاکٹر فضل خان کے مطابق ’کسی بھی آفت یا وبا سے متاثرہ افراد اور ان کا علاج معالجہ کرنے والے ڈاکٹرز اور طبی عملے کو ذاتی حفاظت کا جو سامان استعمال کرنا ہوتا اسے پی پی ای یعنی (Personal Protective Equipment) کہتے ہیں۔
طبی عملے کے لیے جو سامان ہوتا ہے اس کا بنیادی مقصد وائرس سے بچاؤ ہے تاکہ مرض ایک مریض سے ڈاکٹر اور پھر وہاں سے دیگر افراد میں پھیلنے سے روکا جا سکے۔ اس لیے یہ ایسے مٹیریل سے تیار کیا جاتا ہے جس سے ذرات یا جراثیم کا گزر نہیں ہوتاانہوں نے بتایا کہ’ ایک ہیلتھ ورکر کے استعمال کا جو ساز و سامان آتا ہے اس میں مخصوص گاؤن، سانس کے عمل کو متاثر کیے بغیر جراثیم سے حفاظت کرنے والا این 95 ماسک، سر، گردن اور کانوں کی حفاظت کے ہیڈ کور، مخصوص چشمہ یا فیس شیلڈ، دو جوڑے دستانے، جوتا کور اور جراثیم کش سینیٹائزر شامل ہوتا ہے۔‘ڈاکٹر فضل خان کے مطابق ’یہ ساز و سامان کسی معاون کے بغیر پہننا مشکل ہوتا ہے اور کسی کی معاونت کے بغیر اتارنا تو کسی خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ جو لباس ایک بار پہن لیا جائے اسے دوسری بار استعمال میں نہیں لایا جا سکتا۔ عموماً وارڈ سے باہر آنے کے بعد یہ لباس ضائع کرنا ہوتا ہے لیکن قلت کے باعث اب پانچ سے چھ گھنٹے تک استعمال کر رہے ہیں۔ اتارنے کے فوراً بعد ڈبلیو ایچ او کے واضح کردہ طریقہ کار کے مطابق اسے ضائع کرنا ہوتا ہے۔‘عالمی ادارہ صحت کی ترجمان فیڈیلا شیب کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ڈاکٹر اور دیگر طبی عملہ خود اور اپنے مریضوں کو وائرس سے متاثر ہونے سے بچانے کے لیے ذاتی حفاظت کے مخصوص ساز و سامان پر انحصار کرتا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے ذاتی حفاظت کے ساز و سامان کی قلت کی وجہ سے طبی عملے کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔‘عالمی ادارہ صحت کے مطابق ’کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے سرجیکل ماسک کی قیمتوں میں چھ گنا، این 95 ماسک کی قیمت میں تین گنا اور گاؤن کی قیمت میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔‘
ڈاکٹر فضل خان کے مطابق ’عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کے ڈاکٹرز اور طبی عملے کے لیے ذاتی حفاظت کا ساز و سامان بھیجا ہے لیکن اگر صورت حال میں بہتری نہ آئی تو یہ ساز و سامان بہت کم پڑ جائے گا۔طبی عملہ کے ساتھ ساتھ پاک فوج،پولیس (Pak Army and Police )اور دیگر اداروں کا عملہ جو فرنٹ لائن پر اس وائرس سے بچاو کی جنگ میں مصروف ہے اس کی خفاظت کے لئے بھی اقدامات اٹھائے جانا ضروری ہیں ساتھ ہی میڈیا (Media )کا عملہ جو عوام کو پل پل حفاظتی تدابیر اور معلومات تک رسائی دے رہا ہے اس کی خفاظت بھی حکومت کے پیش نظر ہونی چاہئے۔بلکہ حکومت کو طبی عملہ کی کسی بھی درپیش مشکل کو حل کرنے کے لیے ایمرجنسی ھیلپ لائن (Emergency Help Line )قائم کرنی چاہئے .سفید کوٹ والی فوج ڈاکٹر ز، نرسز، پیرا میڈکس اور فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز , افواج پاکستان ، پولیس و دیگر اداروں کو پوری قوم سلام پیش کرتی ہییہ ھماری قوم کے محسن اور محافظ ھیں اور ھمارے لیئے ثابت قدمی کی ایک مثال ھیں اللہ انکی حفاظت فرمائے اور انکو حوصلہ عطا فرمائے جن مشکل حالات اور سازوسامان کی کمی کے باوجود ڈاکٹر اور طبی عملہ جس جانفشانی کے ساتھ کرونا سے لڑ رہا ہے اس پر وہ عوام کی طرف سے مزید بھرپور خراج تحسین کے حقدار ہیں ہم ان کی خدمات پر انھیں سلام پیش کرتے ہیں۔