یہ ایک رشتہ جو میری اوقات بدل دیتا ہے!!

پرسوں جمعہ تھا اور ہر شخص پریشان پھر رہا تھا۔ تھانے سے امام مسجد کو کہا گیا تھا کہ لوگوں سے کہوکہ نماز جمعہ اپنے اپنے ’’ گھروں‘‘ میں پڑھیں۔ آہ !اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسجد میں جانا بھی خلاف قانون ہوگیا ہے۔ مسجد انتظامیہ سے یہ کہو کہ ماسک کے بغیر کوئی مسجد نہ آئے۔ اپنے جائے نماز لے کر گھر سے آؤ۔مسجدوں کو پاک صاف رکھو۔ ہاتھ نہ ملاؤ۔لا مِساس، لا مساس کے نعرے لگاؤ جو سامری لگاتا تھا مگر مسجد کھلی رہے اور کوئی مسجد نہ آئے ۔اذان دے کر بلاؤ مگر اندر نہ آنے دو۔ یہ کیسا قانون ہے؟مسجدوں کو منظم اور پاک صاف کرنے کے بجائے یہ حکم دینا کہ مسجد میں نمازی نہ آئیں کس قدر افسوس ناک ہے۔علماء کا اس نازک وقت میں جو چند فیصد نمازی مسجد آتے تھے ان کو بھی چھوڑ دینا کوئی حکمت نہیں ہے۔اسلام کا سب سے عظیم الاشان یونٹ مسجد ہے۔ اس ادارے کی اصلاح کی ضرورت ہے کہ یہ عوام کی تربیت گاہ بنے۔آج سے بیس سال پہلے ہم نے اسلام آباد کی مسجدوں کا ایک سر وے کرایا تھا۔ان کے طہارت خانے ناقابلِ بیان خراب حالت میں تھے۔ مسجدوں میں اگر مصنوعی زینت کے بجائے رنگین، خوشبودار پھول لگائے جائیں تو شاید نمازیوں اور علماء کے دل پاکیزہ اور نرم ہو جائیں۔ قدرت کے کمالات آنکھیں اور دل کھول دیتے ہیں۔ ان کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔یہ موقع ہے کہ ان کوہر وائرس سے پاک کیا جائے۔ مسجدوں میں قران حدیث اور انسانی ضرورت کے سارے علوم پڑھائے جائیں۔ یہاں کے اساتذہ اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے مالک ہوں۔ ان کی سوچ مسلمانوں کو پاکیزگی، علم اور حکمت کی روشنی عطاء کرے۔ یہ ادارہ ان کو تقسیم نہ کرے بلکہ ان کو اکٹھا کرے۔ اسی میں بقاء ہے۔ مسجد تو مسلمانوں کیلئے محفوظ جنت ہے، اسے ختم اپنے ہاتھوں سے نہ کرو۔ ان کو ختم کرنے کی خواہش تو اسلام کے ازلی دشمنوں کے دلوں میں ہمیشہ رہی ہے۔کرونا طرز کے بیالوجیکل ہتھیار توشاید آئیندہ بھی آتے رہیں گے۔ہمیں اس کا موثر توڑ ڈھونڈنا چاہئے۔عوام کو خوف سے امید کی طرف لے جانا چاہئے اور اس کیلئے مسجد ہی بہترین مقام ہو سکتا ہے۔مسجد الحرام(اور تمام مساجد) کا بڑا مقصداللہ کے بے پناہ علم کی طرف راہنمائی کرنا ہے۔اس کی تفصیل سورہ مائدہ آیت 97 میں عقل مندوں کیلئے دی گئی ہے۔حرمین میں آبِ زمزم پینے والوں کو کیا ہر بیماری سے شفاء نہیں ملنی چاہئے؟ اس پانی کو لوگوں کی پہنچ سے دور کر کے کبھی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ بخاری مسلم شریف میں یہ حدیثِ پاک بھی ہے کہ مکہ اور مدینہ شریف بھی دجال اور طاعون(وبا) سے ملائکہ کی حفاظت میں ہیں۔ ان میں دعاؤں سے روکنے کیلئے فتوے کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے۔ ایک طرف مسجدیں نمازیوں کو ترس رہی ہیں دوسری طرف گھر میں ایک ہجوم بند ہے۔ ہم نے ایک چھوٹا سا سروے اپنے ملنے والوں کے گھروں میں یہ کیا وہ اپنا وقت کیسے گزار رہے ہیں۔بڑی دلچسپ روئداد ہے۔ نمازیں گھر ہی میں ہو رہی ہیں۔ ان کے اوقات البتہ کچھ Flexiسے ہو گئے ہیں۔ فجر کے بعد سونے والے بھی بہت ہیں۔ گیارہ بجے کیلئے اٹھ کر ناشتہ کیا جا رہا ہے۔ کئی ایک تو ایک بجے اٹھتے ہیں۔جن کو خوراک کی فراوانی ہے وہ گھر میں بیٹھ بیٹھ کر موٹے ہو رہے ہیں۔ بہت کم کو کسی ایکسرسائزکی توفیق ہوتی ہے۔ والدین بچوں کی اونٹ پٹانگ حرکتوں سے تنگ ہیں۔ سارا دن5 monkeys jumping on he bed یو ٹیوب پر چلتا رہتا ہے۔جن بچوں کی آن لائن کلاسیں بھی چل رہی ہیں وہ راتوں کو نیٹ فلیکس پر ہوتے ہیں ۔ پھر یہ قوم دن کے وقت سو جاتی ہے۔ انسانی فطرت کے خلاف ۔آج کل ٹرکش ٹی وی کی سیریز Ertugrul بے حد مقبول ہے۔ یہ آج کے عراق، ایران شام اور ترکی کے خانہ بدوش کائی قبیلے کی تاریخی اور انتہائی ایڈونچرس کہانی ہے کوئی ڈھیڑ سو قسطیںہیں۔ ہیں۔ سعودی عرب، یو اے ای اور مصر میں یہ سیریز ممنوع قرار دے دی گئی ہے۔ ارطغرل خلافت عثمانیہ کے عثمان اول کا والد ہے ۔
جن کی عورتیں اور مرد انتہائی بہادر ہیں۔ اردگل کا باپ سلیمان شاہ ہے۔ان لوگوں نے ایک طرف منگولوں کی پٹائی کی تو دوسری طرف صلیبیوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ سلجوق قبائل اور قونیہ والے بھی ساتھ ہیں۔ ایک قسط ہم نے بھی دیکھی۔ ارطغرل کا معاون اور استاد اپنے وقت کا مشہور فلاسفر اور جنگجو ابنِ عربی ہوتا ہے۔ان کی کامیابی میں ایک کمال کی چیز انتہائی سبق آموز ہے۔ Bey اس زمانے کا ایک امتیازی عہدہ ہے۔ اس کی سلیکشن میں جس چیز کا خاص خیال رکھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ شخص اپنے غصے پر قابو رکھتا ہو اور کوئی فیصلہ غصے میں نہ کرے۔بوسنیین زبان میں بے کو بیگ لکھا جاتا ہے جس سے خواتین کیلئے لفظ بیگم نکلا ہے۔دلچسپی ہو تو ضرور دیکھئے۔ سنا ہے کشمیریوں کو بھی یہ داستان بڑی پسند ہے۔ عثمان اول نے آزاد قبائل سے پہلی باقاعدہ سلطنت قائم کی جو چھ سو سال تک چلی۔گھر میں بیٹھنے سے بہت سارے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ مرد حضرات خاصی مشکل میں بھی ہیں۔ ان کے صبر اور شکر کا امتحان بھی ہے۔ابو الحسن خرقانی دسوی صدی عیسوی کے ایک بلند پایہ ولی تھے۔ ایک شخص طویل مسافت طے کر کے ان کی زیارت کو آیا۔ دروازے پر دستک دی تو خرقانی ؒ کی بیوی نے پوچھا کہ کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟اس شخص نے جواب دیا کہ میں فلاں شہر سے مرشدی و مولائی حضرت ابو الحسن خرقانی ؒ سے ملنے آیا ہوں۔ بیوی نے قہقہ لگایا اور کہا؛ تم ایک مکار، ریاکار،اور فریبی کو دیکھنے کیلئے اتنے دور سے آئے ہو؟ حیف تمھاری عقل اور سمجھ پر!توبہ کرو اورواپس جاؤ۔ یہ سن کر وہ شخص الجھن میں پڑگیا۔ سوچنے لگا جس شخص کو دنیا غوث اور قطب سمجھتی ہے اسے اس کی بیگم ریاکار اور مکار قرار دیتی ہے۔سچ کیا ہے؟ کسی سے پوچھا کہ ابو الحسن خرقانی کہاں ملیں گے۔ اس نے کہا وہ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے گئے ہیں۔ وہ شخص جنگل کی طرف چل پڑا۔آگے کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص شیرپر سوار لکڑیاں لاد کر آرہا ہے ہاتھ میں چابک کے بجائے سانپ ہے۔آگے بڑھ کر خرقانیؒ کو سلام کیا۔ حضرت چہرے سے ہی سمجھ گئے کہ گھر سے ہو کر آیا ہے۔ فرمانے لگے گھبراؤ نہیں۔ میری یہ شان اور مقام اسی بیوی کی وجہ سے ہے۔میں اس کی بدزبانی اور تلخ کلامی پر صبر کرتا ہوں اور اللہ نے مجھے صبر کا یہ صلہ دیا کہ شیروں اور چیتوں کو میرا مطیع کر دیا؛
گر نہ صبرم می کشیدے بارِ زن
کے کشیدے شیرِ نر بیگارِ من
اگر میرا صبر اس عورت کا بوجھ نہ اٹھا سکتا تو آج یہ شیر میرا بوجھ کبھی نہ اٹھا تا؛ بہت لوگوںدرجات یو ں بھی بلند ہوتے ہیں۔خوش رہئے!!