آج پوری دنیا کثیر الجہتی حکمت عملی اپنانے پر مجبور ہو چکی ہے

کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے وزیراعظم اور آرمی چیف کی مشترکہ حکمت عملی اور مراعات کا اعلان
وزیراعظم عمران خان نے تعمیراتی شعبہ کیلئے مراعات کے پیکیج کا اعلان کردیا ہے اور کہا ہے کہ کنسٹرکشن کے شعبہ کو صنعت کا درجہ دیا جائیگا۔ گزشتہ روز وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں صحافیوں کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو لوگ بھی کنسٹرکشن میں پیسہ لگائیں گے ان سے نہیں پوچھا جائیگا کہ یہ رقم کہاں سے آئی۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان ہائوسنگ میں سرمایہ کاری کرنیوالوں کا 90 فیصد ٹیکس معاف کردیا جائیگا اور جو فیملی اپنا گھر بیچنا چاہے گی اس سے کیپٹل گین ٹیکس وصول نہیں کیا جائیگا۔ انکے بقول جب ہم لاک ڈائون کی بات کرتے ہیں تو یہ کچی آبادیوں تک کرنا پڑیگا جس سے غریب لوگوں کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ ووہان میں لاک ڈائون اس لئے کامیاب ہوا کہ چینی حکومت نے عام لوگوں کو گھروں میں کھانا پہنچایا۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک ایک کروڑ افراد نے کرونا امداد کیلئے درخواستیں دی ہیں‘ ہم نے گڈز ٹرانسپورٹ بھی کھول دی ہے اور گندم کی کٹائی کی بھی اجازت دے دی ہے۔ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کے عوام کو کرونا وائرس سے خطرہ ہے اس لئے احتیاط کی ضرورت ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آئندہ کیا ہوگا‘ ہم لوگوں کو ڈنڈے مار کر نہیں روک سکتے‘ آہستہ آہستہ چیزوں کو کھولیں گے تاکہ عام لوگوں کو کوئی تکلیف نہ ہو‘ اب تک چار لاکھ والنٹیئرز رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔
دریں اثناء وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ہمراہ ڈیٹا کمانڈ اینڈ کنٹرول کا دورہ کیا۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار نے مشترکہ طور پر میڈیا بریفنگ کا اہتمام کیا اور میڈیا پرسنز سے بات چیت کے دوران بتایا کہ ہم غیرمعینہ مدت کیلئے لاک ڈائون کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ وزیراعظم عمران خان نے ہدایت کی کہ لاک ڈائون اور بھوک کے درمیان توازن پیدا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مسلح افواج سمیت تمام ادارے باہم مل کر قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں پر مؤثر عملدرآمد کر رہے ہیں۔ ہم رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر کرونا کا مقابلہ کرینگے اور ملک میں آٹے کی قلت نہیں ہونے دینگے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کرونا وائرس کی جنگ میں سب سے بڑا چیلنج عوام کے روٹی روزگار کے مسائل سے عہدہ برأ ہونے کا ہے۔ ہمارے پاس یقیناً ترقی یافتہ ممالک جتنے وسائل نہیں کہ مکمل لاک ڈائون کے دوران عوام میں ادویات و خوراک اور دوسری اشیائے ضرورت کی کمی نہ ہونے دی جائے اور انکے کاروبار اور روزگار کو بھی مکمل تحفظ فراہم کیا جائے جبکہ امریکہ‘ فرانس‘ برطانیہ‘ جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک اور ہمارے پڑوسی بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک بھی لاک ڈائون کے دوران تمام شہریوں تک اشیائے ضروریہ پہنچانے اور انکے روزگار کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں جس کا وہ برملا اعتراف بھی کررہے ہیں۔ ہمیں تو محدود وسائل کے باعث گھمبیر عوامی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو جزوی لاک ڈائون کے باعث بھی پیدا ہوئے ہیں اس لئے ہمیں غریب عوام کو بھوک اور بے روزگاری سے بچانے کیلئے حکمت و تدبر سے کام لینا ہے اور کرونا کی جنگ جیتنی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اسی بنیاد پر مکمل لاک ڈائون سے گریز کرتے رہے ہیں جبکہ کرونا وائرس سے دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر ہونیوالے جانی نقصان کے تناظر میں ہمیں مکمل لاک ڈائون کی جانب بھی جانا پڑ سکتا ہے کیونکہ اب تک ہمارے ملک میں بھی کرونا وائرس سے چالیس انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں اور کرونا متاثرین کی تعداد تین ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے جن میں سب سے زیادہ گیارہ سو کے قریب کرونا کے مریض پنجاب میں ہیں۔ اس وقت سندھ میں تو مکمل لاک ڈائون والی کیفیت ہے جبکہ پنجاب اور دوسرے صوبوں میں بتدریج مکمل لاک ڈائون کی جانب بڑھا جارہا ہے جس کے دوران عوام کے روٹی روزگار کے مسائل میں بھی لازماً اضافہ ہوگا۔ اس سے قومی جذبے کے ساتھ اور مربوط حکمت عملی کے تحت ہی عہدہ برأ ہوا جا سکتا ہے جبکہ حکومت اور قومی ریاستی اداروں کا یہی اصل امتحان ہے کہ لاک ڈائون اور بھوک کے درمیان توازن کیسے پیدا کیا جائے۔
اس معاملہ میں حکومتی سطح پر متعدد اقدامات اٹھائے گئے ہیں جس کے تحت لوگوں کو انکے گھروں تک سامان خوردونوش اور ریلیف پیکیج کے تحت مستحقین کو نقد رقوم پہنچانے کا بھی بندوبست کیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے بقول اب تک چار لاکھ رضاکار ٹائیگر فورس میں رجسٹرڈ ہو چکے ہیں جنہیں گھر گھر سامان خوردونوش پہنچانے کی ذمہ داری تفویض کی جارہی ہے جبکہ اس نیک کام میں ملک کے متمول طبقات اور مخیر حضرات کو بھی آگے بڑھ کر حکومت کا ہاتھ بٹانا چاہیے اور وزیراعظم کے کرونا ریلیف فنڈ میں عطیات جمع کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے۔ اس کیلئے معروف صنعت کار حسین دائود نے ایک ارب روپے عطیہ کرکے اچھی مثال قائم کی ہے جس کی ہرصورت دیگر متمول طبقات کو بھی تقلید کرنی چاہیے۔
وزیراعظم نے گزشتہ روز تعمیراتی شعبہ کیلئے جن خصوصی مراعات اور آہستہ آہستہ دیگر چیزوں کو بھی کھولنے کا اعلان کیا ہے اور اسی طرح پنجاب حکومت نے لاک ڈائون میں نرمی کرتے ہوئے ٹیکسٹائل‘ سپورٹس‘ فارما‘ لیدر اور سرجیکل انڈسٹری کو کام کرنے کی اجازت دی ہے اس سے یقیناً بے روزگاری کے آگے بند باندھنے اور فاقہ کشی کی نوبت نہ آنے دینے میں مدد ملے گی۔ اگر آج کرونا وائرس کے مضمرات سے عہدہ برأ ہونے کیلئے عالمی تعاون اور کثیرالجہتی حکمت عملی کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے جس کیلئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گزشتہ روز باضابطہ قرارداد بھی منظور کی ہے تو اس سے کرونا وائرس کی سنگینی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یقیناً اکیلی حکومت اس چیلنج میں سرخرو نہیں ہو سکتی‘ ہمیں من حیث القوم یہ چیلنج قبول کرنا اور اس میں سرخرو ہونا ہے۔ اس مشکل گھڑی میں افواج پاکستان بھی قوم کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ جب ملک کا ہر ادارہ اور ہر طبقہ یکسو ہو کر امدادی کاموں میں آگے بڑھے گا تو کرونا کی جنگ جیتنا ہمارے لئے چنداں مشکل نہیں رہے گا۔