حضرت سید امیر کبیر علی ابن شہاب المعروف ’’شاہ ہمدان ‘‘اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’ذخیرۃ الملوک ‘‘میں رقم طراز ہیں۔’’اس ذاتِ عالیہ (اللہ رب العز ت )نے نہایت ہی حکمت سے یہ چاہا کہ خلقت کی اصلاح کیلئے کوئی حاکم عادل یا مصلح کامل بھیجے تاکہ وہ اپنی خداداد قوت سے اولادِ آدم کے حاکموں کے اعمال اوردنیا کے افسروں کے اشغال کو صراط مستقیم پر محفوظ رکھے اور شرعی احکامات کے اجراء میں نہایت کوشش کرے ،قواعد اسلام اورحدود اللہ کی حفاظت کیلئے خاص وعام میں مساوات کو نگاہ میں رکھے، حکومت کے رعب داب اوراحکامات سے بے چارے کمزوروں اور عاجزوں کو زورآوروں کے ظالمانہ ہاتھوں سے بچائے تاکہ اس دنیا کا انتظام وانصرام قائم رہے،ظلم وبدعت کی خرابیاں شرعی چراہ گاہ کی حدود میں داخل نہ ہونے پائیں۔اورعوام وخواص میں درندوں اورحیوانوں کی صفات نہ ظاہر ہوجائیں۔اس سلطنت کے رستے کو جس نے سب سے پہلے قبول کیا اور اس مشکل کام کے حقوق کو ادا کرنے کیلئے کمرہمت استوار کی وہ حضرت آدم علیہ السلام ہی تھے۔مروی ہے کہ آپکی حیات مبارک میں آپ کے بیٹوں اورپوتوں کی تعداد چالیس ہزار تک پہنچ چکی تھی اور آپ ان تک اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچایا کرتے تھے۔اورا ن کی بودوباش کیلئے قانون تجویز فرمایا کرتے تھے ،اور انکے درمیان انصاف اوربرابر ی کو بروئے کار لایا کرتے تھے۔آپ کا اپنا حال یہ تھا کہ شکم شیر ہوکر نہیں کھاتے تھے اور ان سلے سادہ کپڑے سے وجود کو ڈھانپتے تھے۔ضرورت کے بغیر بات نہیں کرتے تھے۔بعض اوقات آپ سے کوئی سوال کیاجاتا توآپ فرماتے ’’میرے بچو جو کچھ میںنے دیکھا ہے وہ تم نے نہیں دیکھا میں ایک عمل کی پاداش میں جنت سے نکالا گیا اور حیوانات کے زنداں (دنیا )میں ڈال دیا گیا۔ اب میں اللہ سے ڈرتا ہوں کہ کہیں کوئی ایسی حرکت نہ ہوجائے کہ جہنم کے نچلے طبقے میں بند کردیا جائوں۔حضرت آدم علیہ السلام کا وجود دو منصبوں کا جامع تھا ۔پہلامنصب نبوت اوردوسرا منصب سلطنت اور حکومت۔ظاہر ہے کہ نفس اور خواہشات نفسانی کے غلبے کو نبوت کی بارگاہِ عالیہ کی طرف کوئی راہ نہیں اس لیے منصب نبوت کے اسرار انبیائے کرام کے طیب وطاہر جسموں کے علاوہ کہیں ظاہر نہیں ہوئے۔لیکن منصب سلطنت اورحکومت کا طریقِ نفس اور حرص کی جولاں گاہ ہے اور یہ دونوں صفتیں خلقت کو گمراہ کرنے کا سبب ہیں ۔سو عام طور پر ظالم اوربدبخت طبیعتوں والے اس طرف مائل ہوجاتے ہیں (اورنیک لوگ اس سے گریزاں رہتے ہیں)۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024