’’بھوک کا خوف ، بھٹو شہید ؔ اور کورونائی شہیدؔ؟‘‘

معزز قارئین!۔ گذشتہ روز (4 اپریل کو ) اسلام آباد میں میڈیا سے خطاب کرتے ہُوئے وزیراعظم عمران خان نے(نیا پاکستان سکیم کے لئے ) "Construction Industry" (تعمیراتی صنعت ) کے لئے "Amnesty"(عام معافی ، خصوصاً سیاسی تعزیرپر ) دے دِی ہے ۔ کچھ دوسرے شعبوں میں بھی مراعات دینے کا اعلان کِیا ہے لیکن، اُس کے ساتھ ہی کہا ہے کہ ’’کرونا وائرس‘‘ (Coronavirus) سے زیادہ مجھے ( غریبوں ، مزدوروں اور کسانوں ) کی ’’بھوک ‘‘ (Hunger, Appetite, Desire, Need, Want) کا خوف (Fear , Dread , Terror)ہے ۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’4 اپریل 2020ء ہی کو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی 41 ویں برسی تھی ‘‘۔ جنابِ بھٹو کو قصور کے نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں ’’ بڑے ملزم‘‘ کی حیثیت سے ، سپریم کورٹ کے حکم سے پھانسی دِی گئی تھی لیکن، بیگم نصرت بھٹو ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دوسرے اکابرین اور کارکنان ، جنابِ بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیتے تھے / ہیں اور بھٹو صاحب کو شہید قرار دیتے ہیں۔
اس سے قبل 30 نومبر 1967ء کو جب، جنابِ بھٹو نے لاہور میں اپنی چیئرمین شِپ میں پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی تو، ’’غریبوں کے حق میں انقلاب ‘‘ لانے کے لئے اُنہیں ’’روٹی، کپڑا اور مکان ‘‘کا نعرہ دِیا تھا۔ یہ نعرہ بہت مقبول ہُوا تھا ۔ پھر کیا ہُوا؟۔ جنابِ بھٹو ، وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور دامادِ بھٹو ، صدر آصف علی زرداری کے دَور میں ضرورت مند عوام ، ایوانِ صدر یا وزیراعظم ہائوس کی طرف منہ کر کے یہ نعرہ بلند کرتے کہ …؎
روٹی، کپڑا بھی دے ، مکان بھی دے!
اور ہمیں ، جان کی امان بھی دے !
…O…
معزز قارئین!۔ شہید ؔ اللہ تعالیٰ کا ایک صفاتی نام ہے ۔ راہِ حق میں جان قربان کرنے والے کو بھی شہید ؔ کہتے ہیں۔
مصّور پاکستان علاّمہ اقبالؒ نے اپنی ایک نظم میں ’’ خالقِ کائنات‘‘ کو مخاطب کر تے ہُوئے کہا کہ…
میرے خاک و خوں سے تُو نے ، یہ جہاں کیا ہے پیدا!
صِلہ ٔ شہید کیا ہے؟ شب و تابِ جاودانہ!
…O…
یعنی۔ ’’ اے خُدا۔ اِس دُنیا میں زندگی کی رونق اور چہل پہل انہی جانباروں کے دَم سے ہے جو تیری راہ میں شہید ہُوئے۔ گویا یہ دُنیا اُنہی کی خاک اور خون سے تیار ہُوئی ہے ۔ اُن شہیدوں کا انعام کیا ہے؟ ۔ پاکستان کی مسلح افواج کے بڑے اور چھوٹے افسران جب، دفاع پاکستان کے سلسلے میں دشمن کی فوجوں سے لڑتے ہُوئے جاں بحق ہوتے ہیں تو، ساری قوم اُنہیں شہیدؔ کہتی ہے ۔
معزز قارئین!۔ 6 اپریل 2007ء کو ، اسلام آباد کی لال مسجد کے خطیب (سرکاری ملازم) مولوی عبداُلعزیز نے ’’امیر اُلمومنین ‘‘ کا لقب اختیار کرتے ہُوئے ملک میں نظام اسلام نافذ اور شرعی عدالت کے قیام کا اعلان کِیا تو، مجبوراً صدر پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز کی حکومت کو 3 جولائی 2007ء کو پاک فوج نے لال مسجد اور اُس سے ملحقہ خواتین کا مدرسہ حفصہ میں "Operation Sunrise" کِیا تو، اُس میں 103 افراد ہلاک ہُوئے تھے ۔ آپریشن کے نتیجے میں 11 فوجی افسر اور اہلکار بھی شہید ہُوئے تھے ۔
12 جولائی کو ( اُن دِنوں ) صدر ’’متحدہ مجلس عمل ‘‘ (امیر جماعت اسلامی ) قاضی حسین احمد (مرحوم) ، سیکرٹری جنرل امیر (جے ۔ یو ۔ آئی ) مولانا فضل اُلرحمن اور ( جے ۔ یو ۔آئی ) ہی کے مولانا عبداُلغفور حیدر ی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بمباری ، امریکی مفادات کی حفاظت کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو شہید نہیں کہا جاسکتا‘‘۔ حیرت ہے کہ ’’اُس پر آج تک کسی بھی عدالت نے پاک فوج کے خلاف اِس بیان کا نوٹس ہی نہیں لِیا‘‘۔
اسلامی نظریاتی کونسل ۔کا ۔ قبلہؔ؟
معزز قارئین! نومبر 2017ء کے اوائل میں مولانا محمد خان شیرانی کی جگہ ’’ ڈاکٹر قبلہ اؔیاز ‘‘ کو اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین مقرر کیا گیا تو، 7نومبر 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ اسلامی نظریاتی کونسل۔ کا۔ قبلہؔ ؟‘‘ ۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ اسلامی نظریاتی کونسل 1962ء میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان نے قائم کی تھی، جب قومی اسمبلی کا وجود نہیں تھااور فیڈرل شریعت کورٹ ، صدر جنرل ضیاء اُلحق نے، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد 1980ء میں لیکن، اِن دونوں اداروں نے کبھی بھی پاکستان کے مفلوک اُلحال عوام کی بھلائی کے لئے حکومت کو کوئی بھی قانون بنانے کی تجویز نہیں دِی‘‘۔
کورونا زدہ بھی شہیدؔ ؟
2 اپریل کو چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے فتویٰ دِیا ہے کہ ’’ کرونا وائرس‘‘ سے مرجانے والوں کو جاں ؔبحق یا شہیدؔ کہا جائے‘‘۔ معزز قارئین!۔ جاں بحق کے معنی ہیں ۔ ’’مر جانا ، یا اپنی جان حق تعالیٰ کے سپرد کردینا‘‘۔ چلو یہ تو مان لِیا کہ ہر شخص کو جو، مر جاتا ہے وہ حق تعالیٰ کے سپرد ہو جاتا ہے لیکن، کیا ہر ’’ کرونا وائرس‘‘ زدہ کو شہیدؔ قرار دینا ، ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب کا اجتہاد ؔ ہے؟ ۔ مصّور پاکستان علاّمہ اقبالؒ کا ’’ فلسفہ اجتہاد ‘‘ یہ تھا کہ کسی ایک مولویؔ، قاضیؔ، یا مفتی ؔکو نہیں بلکہ مسلمانوں کی منتخب اسمبلی ہی کو اجتہاد ؔکا حق حاصل ہے ‘‘۔فی الحال تو، ہم مسلمانوں کی منتخب اسمبلی (پارلیمنٹ) نے ابھی تک اِس طرح کا اجتہاد ہی نہیں کِیا؟ نہ جانے کب کرے گی ؟