اتوار ‘ 11 ؍ شعبان 1441ھ‘ 5 ؍ اپریل 2020ء
لاک ڈاؤن کے باوجود کرکٹر شہزاد احمد کی اہلخانہ سمیت شمالی علاقہ جات کی سیر
ایک طرف میڈیا پر فنکار، کھلاڑی اور سیاستدان لوگوں کو گھروں میں بیٹھنے کی اپیلیں کرتے کرتے تھک گئے ہیں لگتا ہے اس کا اثر لوگوں پر ہو یا نہ ہو مگر کرکٹر شہزاد احمد پر بالکل نہیں ہوا۔ موصوف کتنے دھڑلے سے اس کرونا کے موسم میں شمالی علاقہ جات کی سیر کرتے پھر رہے ہیں۔ اس غیر ذمہ دارانہ کام میں ان کے گھر والے بھی ان کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔ ویسے یہ ہے تو عجیب بات کہ اس وقت موٹر ویز اور ہائی ویز بند ہیں۔ ٹرین بند ہے۔ جہاز بند ہیں تو شہزاد احمد کیا سلیمانی ٹوپی پہن یا گھر والوں کو گاڑی میں بیٹھا کر سلیمانی چادر اوڑھ کر شمالی علاقہ جات گئے ہیں۔ جادوگر تو وہ ہیں نہیں کہ جادوئی چھڑی گھمائی اور گھر والوں سمیت وہاں پہنچ گئے۔ صاف پتہ چل رہا ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن کے باوجود کہیں نہ کہیں خفیہ سوراخ موجود ہیں۔ جہاں سے لوگ ادھر ادھر پھسل کر جا رہے ہیں۔ یہ ہماری معاشرتی اور اخلاقی گراؤٹ نہیں تو اور کیا ہے کہ ٹرکوں میں چھپ کر اپنے آبائی علاقوں یا کام کرنے والے مقامات پر جو غریب لوگ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں تو پولیس پکڑ لیتی ہے۔ مگر پیسے والے بااثر لوگوں کی بڑی گاڑیاں دیکھ کر انہیں سلیوٹ کر کے گزرنے دیا جا رہا۔ کیا حکومت ایسے پڑھے لکھے بے پرواہ اور لاابالی قسم کے لوگوں سے اغماض برتنے کی پالیسی پر عمل کرے گی یا انہیں بھی قانون پر چلنے کی راہ دکھائے گی اس وقت کرونا بے قابو ہے اور سارے لوگ بھی بے قابو نظر آ رہے ہیں۔ انہیں قابو کرنا ضروری ہے ورنہ کرونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے والا سلوگن بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔
٭…٭…٭
پنجاب میں کم سٹاف اور حفاظتی انتظامات کے ساتھ بڑی صنعتوں کو کام کرنے کی اجازت
وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے یہ اجازت لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند ہوئی صنعتوں کے لیے ایک خوشخبری سے کم نہیں۔ کرونا کا معلوم نہیں کب تک یہ انسانوں کو ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے سزا کا تازیانہ بن کر ان پر برستا رہے مگر امید ہے کہ موسم گرما کے شروع ہوتے ہی اسکا زور ٹوٹ جائے گا۔پاکستان کے 80 فی صد علاقے موسم گرما میں تپ رہے ہوتے ہیں۔ دعا ہے یہ وائرس بھی اس تپش کے ساتھ جل کر خاکستر ہو۔ اس کرونا کی وجہ سے غریب مزدور، دیہاڑی دار سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کے چولہے ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے امدادی پیکج کے باوجود ان تک یہ امدادی پیکج مکمل طور پر نہ پہنچنے کی شکایات بھی مل رہی ہیں۔ ان حالات میں چلیں کم از کم کارخانوں اور فیکٹریوں میں حفاظتی اقدامات کے ساتھ کم سٹاف ہی سہی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت ملنے سے ہزاروں خاندانوں کے مشکلات میں کمی آئے گی۔ ویسے بھی حکومت پنجاب کی کوشش ہے کہ ہر مستحق غریب تک حکومتی امداد پہنے وزیراعلیٰ پنجاب، گورنر پنجاب، سپیکر پنجاب اسمبلی اپنی اپنی طرف سے کوششوں میں مصروف ہیں۔ مخیر حضرات بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔ اب یہ جو ہمارے سیاستدان، جاگیر دار و ڈیرے خان اور میر ہیں یہ بھی اپنے اپنے حلقوں میں جم کر بیٹھ جائیں اور دن رات غریبوں کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیں تو اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم بھی اس کام میں شامل ہو گا۔ ان کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ صرف یہی نہیں رحمت الہٰی کا دریا پھر جوش آ کر ہماری بداعمالیوں کے سبب ہم پر مسلط اس کرونا وائرس کو نیت و نابود کر سکتا ہے۔
٭…٭…٭
کراچی: لیاقت آباد میں نمازیوں کی پولیس سے جھڑپ
عبادت کا شوق مسلمان کے دل میں موجود ہے۔ اس کے باوجود سب کو شکوہ ہے بقول اقبال
’’مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے‘‘
ہر گلی محلے میں کم ازکم دو تین مساجد دن میں 5 مرتبہ ہم سب کو نماز کی طرف بلاتی ہیں۔ مگر کتنے لوگ ہیں جو دعوت پرکان دھرتے ہیں۔ کام کاج کھیل کود اور یعنی کام چھوڑ کر نماز کی طرف لپکتے ہیں۔ آج جب ملک بھر میں دنیا کے دیگر ممالک کی طرح کرونا سے بچاؤ کی مہم چل رہی ہے۔ حفاظتی اقدامات کیئے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب و دیگر مسلم ممالک کی طرح عوام الناس کو احتیاط چند روز نمازیں گھروں میں ادا کرنے کا کہا جا رہا ہے تاکہ اجتماعات سے بچ کر اس کرونا وائرس سے دور رہا جا سکے۔ ورنہ یہ وبا تیزی سے بے قابو ہو کرلاکھوں انسانی زندگیاں نگل لے گی۔ اس کے باوجود ہمارے نیم خواندہ لوگ اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔وہ مشیت الہٰی کے سامنے دم مارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حفاظتی انتظامات اور اقدامات کے مقابلے میں اپنی خودسری دکھا رہے ہیں۔ اس کا جو انجام نکل سکتا ہے اس سے وہ غافل ہیں۔ بعدازاں کسی بدتر صورتحال میں اپنی کوتاہیوں کا ملبہ حکومت پر ڈالتے ہوئے یہی لوگ خود کر بری الذمہ ثابت کرتے ہیں۔ کراچی میں جس طرح لوگوں نے جلوس نکال کر زبردستی نماز جمعہ کے لیے مسجد جانے کی کوشش کی حفاظتی پولیس کو مار بھگایا وہ نہایت افسوسناک ہے۔ ملک کے کئی شہروں میں من مانی کرتے ہوئے کئی مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات ہوئے جو اس بات کا مظہر ہیں کہ حکومت یا پولیس نرمی سے کام لے رہی ہے۔ لوگ نرمی کا غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ حالانکہ علماء و اعظمین بھی موقع کی مناسبت کو سمجھیں لوگوں کو اجتماعی خودکشی سے روکیں۔ اس عارضی ابتدا کے دور میں احتیاط گھروں میں نماز ادا کریں اپنی اپنے گھر والوں کی زندگی بچا لیں۔