صاحبو! اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ پاکستان قانونی اور جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں قائم ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام یہاں قانون کی حکمرانی کا خواب دیکھتے ہیں اور جمہوری طرز سیاست کو پسند کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ تب مسلمانان ہند کو ایسی بااصول اور دیانتدار قیادت میسر تھی جن کے کردار پر مخالفین پاکستان کو بھی انگلی اٹھانے کی جرأت نہ ہوتی۔ کیا خبر تھی کہ اسی پاکستان میں جمہوریت کو پامال کر کے لمبے لمبے عرصوں کے لئے آمریت راج کرے گی۔ جمہوری حکمرانوں کے رویے آمرانہ دکھائی دیں گے۔ جمہوری دور حکومت میں بھی کرپشن کا چرچا ہو گا۔ ہر طرف چور چور کی صدائیں گونج رہی ہوں گی۔ عدلیہ سے نااہل قرار پانے والے حکمران سرعام عدلیہ پر برس رہے ہوں گے۔ حکمران اداروں سے ٹکراتے نظر آئیں گے۔ پاکستان میں ایسی جمہوری قوتیں بھی ہوں گی جو پارلیمنٹ پر لعنت بھیج کر بھی شرمندہ نہ ہوں۔ سیاسی قیادت میں ایسے بقراط بھی نظر آئیں گے جو جوڈیشل مارشل لاء کی باتیں کریں گے۔ جمہوری قیادت جمہوریت کی روح کو سمجھنے کی بجائے ذاتی مفادات کے لئے جنگ لڑتی نظر آئے گی۔ سیاسی قیادت کا دست و گریبان ہونا عوام کو مایوس کر دے گا۔ جمہوری طرز سیاست بذریعہ گفتگو مسائل حل کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ پارلیمنٹ کا پلیٹ فارم اسی غرض کیلئے ہوتا ہے مگر یہاں کی سیاست پارلیمنٹ کی بجائے سڑکوں پر نظر آتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ عوام کو عدل کی فراہمی جمہوری حکومت کی اولین ذمہ داری ہوا کرتی ہے مگر جہاں جمہوری حکمران حصول انصاف کے لئے دوہائیاں دیتے پھر رہے ہوں اس قیادت سے عوام کیا توقع باندھے۔ ہم جانتے ہیں کہ جھوٹ‘ فریب‘ اقربا پروری اور کرپشن جمہوریت کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ اب پاکستان میں سیاست کس ڈگر پر چل رہی ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی
نہیں۔ پانچواں درویش پھر بولا بحالی جمہوریت کے بعد پی پی پی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ اس عرصے میں عوام کو بہت سے مسائل کا سامنا رہا۔ مسلم لیگ ن ان مسائل سے نمٹنے کی دعویٰ دار تھی۔ عوام نے ان پر بھروسہ کرتے ہوئے انہیں بھاری مینڈیٹ دیا۔ ان دنوں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی تھا۔ ملک کے کونے کونے میں بے گناہ لوگوں کا خون بکھرا پڑا تھا۔ عوام سخت پریشان تھے۔ ملک میں مایوسی اور بے یقینی کی فضا پروان چڑھ رہی تھی۔ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے نتیجہ میں دہشت گردی کم ہوئی جس کا کریڈٹ جمہوری حکومت لینے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔ اب کے پی ایس ایل کرکٹ کے انعقاد پر عوام کے چہروں پر خوشیاں دیکھ کر لگتا ہے کہ عوام میں خصوصاً کراچی کے لوگوں میں اعتماد بحال ہوا ہے۔ البتہ سچ یہ بھی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل نہ کرایا جا سکا جو جمہوری قیادت کی اہم ترین ذمہ داری تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کا راستہ مستقل بند نہیں ہو پایا۔ حال ہی میں بھی خود کش حملہ ہو چکا۔ رائے ونڈ خود کش دھماکہ میں 9 بے گناہ افراد شہید اور20 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اس جمہوری قیادت نے معیشت کے استحکام‘ بے روزگاری کے خاتمے اور کشکول توڑنے کا عہد کیا تھا ملک میں بے روزگاری کا اژدھا آج بھی موجود ہے۔ ان 5 سالوں میں کشکول بھی نہیں ٹوٹ پایا۔ اس وقت روپے کی جو قدر ہے اس سے کون واقف نہیں؟ اس وقت ہمارا اہم ترین مسئلہ توانائی کا بحران تھا۔ لوڈشیڈنگ نے عام آدمی کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ لوگ سراپا احتجاج تھے۔ یہ بحران ملکی معیشت کے لئے بھی خطرہ بن چکا تھا۔ حکمرانوں نے سوچا اس بحران پر قابو پا کر 2018ء کے انتخابات جیتے جا سکتے ہیں۔ حکومت وقت نے اس مسئلہ کی طرف توجہ دی اور ساتھ ہی عوام میں ترقی کا تاثر دینے کے لئے سڑکوں کا جال بچھانے کی مذموم منصوبہ بندی کی۔ چند شہروں کی حد تک حکومت کامیاب بھی رہی۔ ادھر مخالفین حکومت بھی سڑکوں پر آ نکلے۔ ہر طرف جلسوں جلوسوں اور دھرنوں کی بہار دکھائی دینے لگی۔ بات کرپشن کی ہو یا پانامہ کی وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو عدالت جانا پڑا۔ نااہل ہونے کے بعد نواز شریف نے بڑے بڑے جلسوں میں عوامی عدالتوں کی باتیں کرنا شروع کیں۔ مریم نواز کھل کر میدان سیاست میں کود چکی تھیں وہ بھی عوامی اجتماعات میں عدلیہ پر برسنے لگیں۔ نااہلی کے بعد جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے ان میں مسلم لیگ ن کامیاب ٹھہری جس سے نتیجہ اخذ کر لیا گیا کہ عوام اس نااہلی کے فیصلے کو قبول نہیں کر رہے۔ نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلند کیا۔ عوام کا خیال تھا کہ اس سیاسی افراتفری کے ماحول میں سینیٹ الیکشن نہ ہو پائے گا۔ سینیٹ کا الیکشن ہوا جس سے حکمران جماعت کو زبردست دھچکا لگا۔ سمجھا یہ جا رہا تھا کہ آصف علی زرداری اور عمران خان کا مل بیٹھنا ممکن نہیں مگر دونوں رہنما ایک شخصیت پر راضی ہو گئے جو چیئرمین سینیٹ بن گئے۔ سنا ہے سینیٹ انتخابات میں بھی کرپشن ہوئی اگر ایسا ہے اور کرپشن کا جادو ایوان بالا تک پہنچ گیا تو پھر عوام کس سے داد چاہیں کس سے فریاد کریں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024