چودھری نثار علی خان نظریاتی مسلم لیگیوں کی آواز ہے۔ میاں شہباز شریف کو بھی چوھدری نثار کے موقف کی کھل کر تائید کردینا چاہئے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔سیاست میں ٹائمنگز کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مسلم لیگ ن نظریاتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ نواز شریف کی مقبولیت کا بھرم عدلیہ کے فیصلے کے بعد کھل ہو جائے گا۔ مسلم لیگ ن تقسیم ہو جائے گی۔چودھری نثار اپنے نظریہ پر قائم ہیں البتہ نواز شریف سمجھتے ہیں کہ ان کیخلاف فیصلہ فوج اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ سے آیا ہے۔ نواز شریف 2018ء کے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ مخالف موقف لے کر جانا چاہتے ہیں۔ ن لیگ میں شہباز شریف کی سوچ غالب آتی جارہی ہے، زیادہ تر ارکان اسمبلی چودھری نثار اور شہباز شریف کی مفاہمانہ پالیسی کو لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف لڑنے اور جیل جانے کیلئے تیار نظر آرہے ہیں لیکن وہ اس فیصلے پر قائم نہیں رہ سکیں گے، نواز شریف کو بالآخر شہباز شریف اور چوہدری نثار کی تجویز کردہ پالیسی اپنانی ہوگی۔نواز شریف کالائف اسٹائل صعوبتیں برداشت نہیں کرسکتا۔ن لیگ مزاحمت کی سیاست کیلئے نہیں بنی، پچھلے چار سال پارٹی ارکان نواز شریف سے مطمئن نہیں رہے۔اچھے بھلے وزرا اپنے قائد سے ملنے کو ترستے رہے۔ جذباتی کارکن مسلم لیگ کے رومانس کو تصوراتی دنیا میں پالتے پوستے رہے اور مفاد پرست نواز شریف کے ہر دور کو کیش کراتے رہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی مٹھی چاپی بھی کرتے ہیں اور نواز شریف کی خوشامد سے بھی گھر بھرتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے سب کی فائلیں محفوظ کر رکھی ہیں۔ شہباز شریف بھائی سے کھلی مخالفت کو سیاسی خود کشی سمجھتے ہیں۔ اس وقت کے انتظار میں ہیں جب حالات خود بخود ان کی حمایت میں ہو جائیں۔ لیکن حالات کو اپنے حق میں کرنے کا موقع ضائع کرنا غیر دانشمندی ہو گی۔حمزہ شہباز این اے 120کے الیکشن کے وقت ناراض ہو کر بیرون ملک چلے گئے تھے۔ انہوں نے باہر جانے سے قبل ون آن ون نواز شریف سے ملاقات کی تھی۔ اب واپس آکر والد کی مفاہتی پالیسی کا پرچار شروع کر دیا ہے۔ شہباز شریف کبھی بھی نواز شریف کے مدمقابل نہیں آسکتے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اوّل یہ کہ شہباز شریف اپنے والدین اور بڑے بھائی کا دل سے احترام کرتے ہیں اور دوسری وجہ سیاسی ہے ،شہباز شریف سمجھتے ہیں کہ ووٹ بینک نواز شریف کا ہے اور قیادت سے علیحدگی میں انہیں سیاسی نقصان ہو گا۔دونوں بھائیوں کے بچوں کاساتھ چلنا یا ایک دوسرے کو لیڈر ماننا بھی ناممکنات میں سے ہے۔ ووٹ بینک نواز شریف کا ضرور ہے لیکن اب مسلم لیگ ن کو میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان کی رہنما کی ضرورت ہے۔نواز شریف بھی اندر سے بھائی کے ہم خیال ہیں لیکن اب قدم پیچھے ہٹانے کا وقت گزر چکا۔چھوٹے بھائی معاملات سیٹل کرنے میں اپنی مفاہمتی پالیسی کو بروئے کار لا رہے ہیں اور بڑے بھائی اینٹی اسٹیبلشمنٹ رویہ سے عوام کو مرعوب کرتے رہیں گے۔ اندر سے دونوں اگلے پانچ سال لینے کے لئے ایک پیج پر متفق ہیں۔ حالانکہ شہباز شریف جانتے ہیں کہ نواز شریف نے تصادم کا راستہ برقرار رکھا تو وہ بھی نہیں بچیں گے، ابھی تک کسی نے ن لیگ کو توڑنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے، اگر سنجیدہ کوشش کی جاتی تو ن لیگ بہت پہلے ٹوٹ چکی ہوتی۔خواجہ سعد رفیق اور چوہدری نثار فوج کے ساتھ تعلق کی وجہ سے نواز شریف کے جیل جانے کی
صورت میں ہم خیال گروپ کے ہمراہ شہباز شریف کی چھتری تلے جمع ہو جائیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گرم اور نرم رویوں کی سیاست سے اگلے الیکشن کے لئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ چودھری نثار علی خان صاف ستھرا سیاستدان ہے۔ نظریاتی مسلم لیگ کے فیصلے پر نظریاتی مسلم لیگی لبیک کہہ دیں گے۔ میاں شہباز شریف سوچ سمجھ لیں ایسا نہ ہو کہ ٹرین ہی چھوٹ جائے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38