دہشت گردوں سے کوئی تعلق نہیں امریکہ کا ساتھ دینے پر خمیازہ بھگت رہے ہیں : ناصر جنجوعہ
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی۔ سٹاف رپورٹر)قومی سلامتی کے مشیر ناصر خان جنجوعہ نے کہا ہے کہ پاکستان نے ساتھ دیا تب امریکہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور بنا۔ دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دی ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی ملک ،پاک افغان سرحد جیسے دشوار گزار مقام اور خصوصاً چوبیس ہزار فٹ بلندمحاذ پر دہشت گردوں کے خلاف جنگ کر کے دکھا دے۔ یہ کارنامہ پاکستان نے سرنجام دیا ہے۔ ” نیکٹا “کے زیر اہتمام بین الاقوامیانسداد دہشت گردی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان جنگ میں ہم نے امریکا اور مغرب کا ساتھ دیا۔مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ ہم نے طالبان کے خلاف امریکا کا ساتھ دیا ردعمل میں طالبان نے پاکستان پر حملہ کیا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہمارے 60ہزار لوگ شہید ہوئے اور ہماری معیشت تباہ ہوگئی مگر ہم نے ثابت قدم رہ کر دہشتگردی کا مقابلہ کیا جس کی بدولت پاکستان اخلاقی طور پر بلند درجے پر فائز ہے ۔ ہم عالمی برادری کا ساتھ دینے پر دہشتگردی کا شکار ہوئے ہیں فاٹا ،بلوچستان اور کراچی میں الجھایا گیا مگر ہم نے فاٹا سمیت ہر جگہ دشمنوں کا مقابلہ کیا دشوار ترین علاقوں میں عالمی برادری آئے اور اس طرح لڑ کر دکھائے جس طرح ہم نے اس دشوار گزار علاقوں میں دہشتگردوں کو شکست دی پاکستان کا دہشتگردوں سے براہ راست کوئی تعلق نہیں یہ سب امریکہ کا ساتھ دینے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر پاکستان امریکا کا اتحادی نہ بنتا تو کیا آج افغانستان آزاد ہوتا۔ اگر سوویت یونین قائم رہتا تو کیا دیوار برلن گرتی۔کیا 14 ممالک آزادی حاصل کرتے۔ کیا امریکا سوویت یونین کی موجودگی میں سپر پاور بنتا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکا اور عالمی برادری یہاں سے چلی گئی اور ہمیں بعد کے حالات سے نمٹنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا۔ ہم نے طاقت کی بجائے محبت کی حکمت عملی اپنائی جس کا نتیجہ جیوے جیوے بلوچستان اور جیوے جیوے پاکستان کی صورت میں نکلا۔انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان میں لوگوں نے ہتھیار پھینک دیئے ہیں۔ بلوچستان میں بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح قومی پرچم لہرارہا ہے صوبوں نے مل کر دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کامیاب بنایا۔ دشمن افغانستان فرار ہوگیا ہے افغانستان کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔اے این پی کے افراسیاب خٹک نے کہا کہ گذشتہ 10سالوں کے دوران دہشت گردی کے ہزاروں واقعات ہوئے ،اے این پی کے سربراہ ، قیادت اور مجھ پر بھی خودکش حملے کیے گئے لیکن آج کا پاکستان پہلے سے کئی زیادہ محفوظ اور مستحکم ہوچکا ہے ۔ پرائیویٹ جہاد کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، ریاست ہی جہاد کا اعلان کر سکتی ہے ۔نیشنل کاﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کے سابق کوآرڈینیٹر طارق پرویز نے کہا ہے کہ داخلی سلامتی کے معاملات میں فوجی اور نیم فوجی دستوں کو استعمال کرنا مسئلہ کا عارضی حل ہو سکتا ہے، مستقل نہیں، کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات پر توجہ نہیں دی گئی اسی لئے فوجی عدالتوں کو توسیع دینا پڑی۔ انتہاءپسندی کے خاتمے کے لئے اقدامات نہ کئے گئے تو دہشت گرد دوبارہ ابھر سکتے ہیں۔ سابق چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا شکیل درانی نے انسداد انتہاءپسندی کے لئے قومی پالیسی گائیڈ لائنز کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی عمل داری جب کمزور ہوتی ہے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں، ریاست کو اپنی عمل داری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے خواہ یہ عمل داری اسلام آباد میں گرین بیلٹس پر قبضہ کرنے کی صورت میں چیلنج کی جائے یا ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا کر لڑنے کی صورت میں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی عمل داری کا مطلب فوج، پولیس اور رینجرز کی پوسٹیں قائم کرنا نہیں بلکہ سکولوں میں بچوں کی تعلیم تک رسائی، ہسپتالوں میں صحت کی سہولیات کی فراہمی، ڈاکٹروں اور ادویات کی موجودگی، پانی اور سیوریج کی سہولیات کی فراہمی بھی ریاست کے کام ہیں، ریاست اپنے حصے کا کام نہیں کرے گی تو ریاست کی رٹ متاثر ہوگی۔ ایڈیشنل ہوم سیکریٹری پنجاب مس مرِیم خان نے کہا کہ آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان وضع کیا گیا۔ عوام اور حکومتی اداروں کے درمیان خلیج کم کرنے کی ضرورت ہے۔ انتہاءپسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بہت سے شعبوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ثقافت کی بحالی بے حد ضروری ہے۔ کاﺅنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا کے مبارک زیب نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے لئے سی ٹی ڈی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد سرحد پار سے حملے کرتے ہیں۔ انہوں نے ننگر ہار، کنڑ سمیت مختلف علاقوں میں اپنے ٹھکانے بنا رکھے ہیں جہاں سے پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ داعش ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ملوث ہے۔ داعش کے 49 افراد گرفتار کئے گئے جبکہ 8 مارے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ اغواءبرائے تاوان اور جرائم سے اکٹھا ہونے والا پیسہ دہشت گردی میں استعمال ہوتا ہے۔ جماعت الاحرار، داعش، لشکر اسلام، پی ٹی پی سجنا گروپ اور ٹی ٹی ایس افغانستان میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی کوئی سرحد نہیں لیکن ان کے خلاف کام کرنے والوں کی حدود اور سرحدیں متعین ہیں۔
ناصر جنجوعہ