ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے کالم سیاق و سباق کے ساتھ ہوں۔ اس میں کتنے کامیاب ہیں یہ تو قارئین ہی بتا سکتے ہیں۔ لیکن یہ جانتے ہیں کہ ہم کالم میں کسی نہ کسی مسئلے کی نشاندہی تو کرتے ہیں لیکن نہ جانے ایسی کیا کمی رہ جاتی ہے کہ ارباب اقتدار اس کا نوٹس لینے سے قاصر رہتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے کالم ان کی نظروں سے گذرتے ہی نہ ہوں ۔ کافی غور و خوص کے بعدہم یہ ہی سمجھ پائے ہیں کہ کالم میںموٹیویشن کی کمی اس کا سبب ہو سکتی ہے، جس کا تدارک ہم آج کے کالم میں کرنے کی کاشش کریں گے اور وہ بھی پورے سیاق و سباق کے ساتھ۔ہم نے بہت پہلے ایک کالم لکھا تھا کہ پہلے کس طرح محلوں میں چوکیدار پھرا کرتے تھے۔ ہر بنک پر ایک گارڈ ہوتا تھا جس کے پاس دو نالی بندوق ہو تی تھی۔ عام دکانوں پر کوئی گارڈ نہ سپاہی نہ چوکیدار۔ سکون ہی سکون تھا۔ پھر اچانک وارداتیں ہونے لگیں اور ساتھ ہی سکیورٹی گارڈز کی کمپنیاں قائم ہو گئیں۔ اب ہربڑی دکان، بینک، پلازہ۔ مال (MALL) پر وردی پوش سکیورٹی گارڈز اسلحے سمیت نظر آنے لگے ہیں۔ ہماری زندگی میں ہم نے ایک تو سکیورٹی گارڈز کو چوکیداروں کی جگہ لیتے دیکھا ہے۔ دوئم ڈاک خانے کا نعم البدل کوریئر سروس کی صورت میں نظر آیا۔ یہ کیسے وجود میں آئے اس کے ڈانڈے ایک جعلی کریم بنانے والی تجارتی کمپنی کی اشتہاری مہم سے ملتی ہے۔ بمبئی میں ایک کریم کے اشتہار ٹراموں اور بسوں پر نظر آئے پھر کچھ لوگ کرائے پر حاصل کیے گئے جو دن بھر مختلف دکانوں پر جا کر وہی کریم مانگنے لگے۔ کریم کی ڈیمانڈ دیکھتے ہوئے دکاندار کریم خریدنے پر تیار ہوئے تو سیلز مین پہنچنا شروع ہوئے اور کریم سپلائی ہونے لگی۔ اچھا خاصہ اسٹاک دکانوں پر دستیاب ہوا تو سیلز مین اور جعلی گاہک غائب ہو گئے اور دکانوں پر کریم سڑنے لگی۔ ہزاروں بوتلیں بیچ کر نوسر باز رفو چکر ہوگئے۔
جعلی گاہکوں نے کسی کو نئی سجھائی اور نتیجتاً اچانک ڈکیتیوں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں نے سکیورٹی گارڈز کو جنم دیا ۔اب ہر بڑی اسٹیبلشمنٹ پر مختلف کمپنیوں کے گارڈز نظر آنے لگے۔ لیکن یہ بھی عجوبہ ہی ہے کہ زیادہ تر وارداتوں میں سکیورٹی گارڈز کو ہی ملوث پایا جاتا ہے۔ شاید ایک دو ہی بار ایسا ہوا کہ گارڈز نے واردات کو ناکام کیا اور ایک آدھ شہادت بھی ہوئی لیکن زیادہ تر بینک ڈکیتیاں ان ہی گارڈز کے معاونت سے ہوئیں اور یہ پکڑے بھی نہیں گئے۔ کئی فلیٹس میں خواتین کے قتل میں بھی یہ گارڈز ملوث پائے جاتے ہیں۔ جب دونالی بندوق یا ڈنڈا بردار چوکیدار ہوتے تھے تو ایسی وارداتیں بھی ناپید تھیں۔ چند دن پہلے بھی ایک ایسی واردات ہوئی کہ تین گارڈز، ایک ناتجربہ کار، ڈاکو کو دیکھ کر فرار ہو گئے اور ڈاکو اطمینان سے دس بارہ لاکھ لے کر چلتا بنا۔ اب طرفہ تماشہ یہ ہے کہ سکیورٹی گارڈز کمپنیاں خوب کما رہی ہیں۔ کلوزڈ سرکٹ کیمرے بھی انسٹال ہو رہے ہیں لیکن ان کا بھی فائدہ صرف کیمرہ بنانے والوں کو ہے۔ لگوانے والوں کو نہیں۔کوریئر سروس والوں نے بھی پہلے تو ڈاک خانوں کی افادیت کو ختم کروایا۔ پھر آہستہ آہستہ قدم جما لیے۔ہم نے اپنے کالم میں سکیورٹی کمپنیوں کی کارکردگی کے بارے میں لکھا تو تھا لیکن حکومت کو ان کے خلاف قدم اٹھانے کے لیے موٹیویٹ نہیں کیا تھا اس لیے کوئی ایکشن نہیں ہوا ۔ یہ موٹیویشن کیا ہے اورکیوں ضروری ہے اس کے لیے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ تقریباً 40 سال پہلے دوران ٹریننگ ہمارے ٹریننگ منیجر نے بتایا تھا کہ کسی بھی پروڈکٹ کی تعریف اور توصیف کے بعد کسٹمر سے یہ ضرور کہنا چاہیے کہ جناب اسے استعمال ضرور کریں۔ اس کے لیے کہا گیا کہ سیل کلوز کرنا ضروری ہوتا ہے جس کے لیے مختلف جملوں سے کسٹمر کو استعمال کی دعوت دی جانی چاہیے۔ ہم سب کو یہ عجیب لگا کہ جب پروڈکٹ بنا دی تو پھر ظاہر ہے استعمال کروانا ہی مقصد ہوا۔ اس پر ٹریننگ منیجر نے اپنا ایک قصہ سنایا کہ ان کے ایک دوست نے ایک دن بتایا کہ اس کو تنخواہ کا چیک نہ جانے کیوں اب تک نہیں ملا۔ میں نے اس کو کہا ہو سکتا ہے لیٹ ہوگیا ہو کسی وجہ سے۔ دوسرے دن پھر اس نے کہا یار پریشانی ہو رہی کیوں نہیں آیا چیک اب تک۔ تیسرے دن پھر اس نے یہ کہا تو ہم نے کہا ایک ریمائنڈر لکھ دو۔ اس پر اس نے کہا ’’یار کیا آپ مجھے دو تین ہزار قرض دے سکتے ہیں‘‘۔ اب میں سمجھا اور فوراً اسے پیسے دے دیئے ساتھ ہی اس سے کہا یار عجیب آدمی ہو پہلے ہی یہ کہہ دیتے۔ تم سے کوئی تکلف ہے کیا۔ چند دن بعد ہمارے مینجنگ ڈائریکٹر ڈگلس سڈنی نے بھی ایک واقعہ سنایا کہ جب وہ میڈیکل ریپ تھے تو اپنے ایک دوست ڈاکٹر کے پاس روزانہ جاتے۔ اسے کئی بار بتایا کہ میں نے ایک فارما کمپنی جائن کر لی ہے اور اس کی یہ یہ دوائیاں بہت مشہور ہیں۔ یہ بات وہ ڈاکٹر کو کہتے رہے لیکن ڈاکٹر نے ان کی پروڈکٹ استعمال نہیں کی۔ بالآخر ایک دن انہوں نے پوچھ ہی لیا کہ یار تم میری دوائیاں پرسکرائب (Prescribe ) نہیں کرتے اس پر ڈاکٹر کا جواب تھا ’’ تم نے کبھی کہا ہی نہیں‘‘۔ ان دو واقعات کے تناظر میں اب یہ بات سمجھ آرہی ہے کہ کالم میں ہم ایشوز کی نشاندہی تو کرتے ہیں لیکن حکومت کو اقدام اٹھانے کے لیے موٹیویٹ نہیں کیا کہ پہلے ان سکیورٹی کمپنیوں کو تو چیک کرو۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024