خوراک جسم کی سب سے بڑی تکراری حاجت ہے۔ اب انسان کی تکراری ضروریات میں روٹی ، پانی کے ساتھ ساتھ بجلی، گیس بھی شامل ہو گئے ہیں۔پچھلے دنوں پٹرول اور ڈیزل کی قیمت بالترتیب بڑھا کر 305.36اور 311.84روپے فی لٹر کر دی گئی ہے۔ پٹرول کی مہنگائی عام آدمی کی دوست احباب ، عزیز و اقارب تک رسائی بھی مشکل بنا دے گی۔ کاشتکار ی کے اخراجات بڑھ جانے کے باعث اجناس کی قیمتیں اور بڑھ جائیں گی۔ بجلی کی ناقابل برداشت قیمت کا قیاس اس واقعہ سے کریں۔ پتوکی کے نواحی گا?ں حسین خالو آلہ میں واپڈا ہلکار شدید عوامی رد عمل سے ڈرتے ہوئے بجلی کے بل تقسیم کرنے کی بجائے وہیں کہیں پھینک کر بھاگ نکلا۔
بھولے بھالے عوام کو کیسے گمراہ کیا جارہا ہے ؟ وہ لائن مین جو نامکمل حفاظتی انتظامات کے ساتھ بجلی کے کھمبوں پر چڑھ جاتے ہیں ، موت سے آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے برقی رو کی بحالی کا بندوبست رکھتے ہیں انہیں بھی بجلی کی گرانی میں حصہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ نچلے گریڈوں کے ان ملازمین کو تنخواہ کتنی ملتی ہے ؟ کیا واپڈا انجینئرز اور افسران کے ساتھ ملازمت کے معاہدہ میں تنخواہ کے ساتھ مفت بجلی کی فراہمی شامل نہیں ؟ ان سے یہ سہولت واپس لینے سے کیا فرق پڑ جائیگا؟ امسال فروری میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس جو بجلی چوری کی گئی اس کی قیمت 380ارب روپے ہے۔ 200ارب روپوں کی بجلی کنڈیوں سے اور 180ارب روپوں کی میٹرون سے چوری کی گئی۔ اس رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں کے باعث آئندہ برس 520ارب روپے بجلی چوری کا خدشہ ہے۔ جبکہ گذشتہ برس بجلی کے محکموں کے ایک لاکھ انانوے ہزار ملازمین نے 8ارب 19کروڑ کی بجلی مفت استعمال کی۔ سردیوں میں تمام سرکاری رہائش گاہوں اور دفاتر میں بجلی کے ہیٹروں کے فیاضانہ استعمال کے باوجود ہماری بجلی کی کھپت اس کی خرید سے بہت کم رہ جاتی ہے۔ بہت سے بجلی پیدا کرنے والے ادارے بند رہ کر بھی پوری پیداواری قیمت وصول کرتے ہیں۔ہمیں اتنی بجلی کی ضرورت ہی نہیں تھی جتنی بجلی خریدنے کے معاہدے کر لئے گئے ہیں۔ خرابی ان کی بجلی کے مفت استعمال میں نہیں ، خرابی بجلی کی ضرورت سے زیادہ خرید سے ہے !
پاکستان میں آئی پی پیز (Indipendent power producers)کی تعداد 78کے لگ بھگ ہے۔ ان سے بینظیر اور نواز شریف دور میں بجلی خریدنے کے معاہدے کئے گئے۔اول تو یہ معاہدے ہماری ضرورت سے بھی زیادہ تھے۔ پھر ان معاہدوں میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ چاہے پاکستان ان سے بجلی لے یا نہ لے ، ان کی پیداوار کی کل قیمت ادا کرنے کا پابند ہوگا۔اس کی ادائیگی بھی غیر ملکی کرنسی ڈالر میں کرنا ہوگی۔ ہم نے ان کی کْل پیداوار کبھی بھی نہیں لی۔ سردیوں میں ہماری بجلی کی ضروریات بہت کم رہ جاتی ہیں۔ لیکن بجلی کی قیمت کی ادائیگی ہمیں آئی پی پیز کو اس کی کل پیداواری صلاحیت کے مطابق کرنا پڑتی ہے۔ کیونکہ معاہدے کی شرائط ہی اسی طرح ہیں۔
اسلام اور یورپ کے سرمایہ دارانہ نظام میں ایک بنیادی فرق ہے۔ اسلام میں صرف سود ہی حرام نہیں۔ غیر منصفانہ شرح منافع بھی سود کے طرح حرام ہے۔ یورپ کے سرمایہ دارانہ نظام میں ایسی کوئی پابندی نہیں۔ آئی پی پیز کے ساتھ بجلی خرید کے معاہدے خالصتاً یکطرفہ مفاد ذہن میں رکھ کر کئے گئے۔ دراصل حکومت پاکستان کی طرف سے ان معاہدوں کی شرائط طے کرنے والے وہی لوگ تھے جو درپردہ ان آئی پی پیز کے مالکان یا حصہ دار تھے۔ سو معاہدوں میں ایک فریق (خریدار حکومت پاکستان ) کے مفادات کا قطعاً خیال نہیں رکھا گیا۔
عمران خان کے دور حکومت 2021ء میں ان کمپنیوں کے ساتھ مذاکرات ہوئے۔ انہیں باور کرایا گیا کہ اگر ملک ہی تباہ ہو گیا تو ان معاہدوں کا وجود کہاں رہے گا؟معاملے کی نزاکت ان کی سمجھ میں آگئی۔ سو یہ مذاکرات کامیاب رہے۔ اب ان سے یہ معاہدہ قرار پایا کہ بجلی کی قیمت تو ڈالر میں ہی ادا کی جائیگی۔ لیکن ڈالر کی قیمت 148روپے فی ڈالر پر فکس کر دی گئی۔ اب ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ میں خواہ کچھ بھی ہو 148 روپے فی ڈالر ہی تصور ہوگی۔ اسطرح حکومت پاکستان 78میں سے کم و بیش. چالیس آئی پی پیز کو ان کی بجلی کی پیداواری لاگت اور انکی پیداواری صلاحیت کی ادائیگی 148 روپے فی ڈالر کے حساب سے کر رہی ہے۔ یہ مذاکرات ان آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے جن سے حکومت پاکستان کے معاہدے 1994، 2002ء اور 2008ء میں ہوئے تھے۔ لیکن 2014-15 میں سی پیک اور چین کے تعاون سے ایک ایک ہزار میگا واٹ کے کراچی IIاور کراچی III، نیوکلیئر جنریشن پلانٹ کی بجلی کے بارے کیونکہ اب تک مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ اسلئے ان کی 13000 میگاواٹ بجلی کی ادائیگی 2014-15سے ڈالر کے موجودہ مارکیٹ ریٹ کیمطابق ہی کی جا رہی ہے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خاں نے ایک ٹاک شو میں پڑھی لکھی بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک آئی پی پیز پاکستان میں ہیں ، بجلی سستی نہیں ہو سکتی۔ اس پر خرم دستگیر خاں جھٹ بولے !عمران خان کی کابینہ میں چار آئی پی پیز مالکان موجود رہے ہیں۔
ادھر ہر جماعت کے حصے کے مفادات یا بیوقوف اس کی فصیل پر پہرہ دینے کو ہردم موجود نظر آتے ہیں۔ خرم دستگیر خاں یہ کبھی بتانا پسند نہیں کریں گے کہ ن لیگی آئی پی پیز مالکان کتنے ہیں ؟آئی پی پیز ایک معاشی واردات ہے جو اس ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی باری پر ڈالی۔
٭…٭…٭
میری "عارف" لکھنے کی حماقت اور وزارتِ خارجہ کا معمّہ۔
May 08, 2024