صدر مملکت کا انتخاب ....عوام کریں
دنیا کے نقشہ پر واقع ممالک میں روز افزوں جمہوریت کی افزائش و ترقی ہو رہی ہے۔ مصر میں ایک فوجی انقلاب کے نتیجے میں اپنی معزولی پر اُس وقت کے معزول شاہ فاروق نے کیا خوب کہا تھا کہ ”دنیا میں آخر صرف پانچ بادشاہ رہ جائیں گے چار تاش کے اور پانچواں برطانیہ کا۔“ بظاہر تو یہ کف افسوس ہے لیکن اس میں ایک بڑی حقیقت بھی پوشیدہ ہے کہ زمانہ قدیم سے راج اور رواج بادشاہوں کا ہی چلتا تھا۔ رفتہ رفتہ انسانی ارتقائی معاشی ترقی کے ساتھ لوگوں کو اپنے سیاسی حقوق کی پہچان ہوئی اور یوں وہ ان کے حصول کے لئے ڈٹ گئے اور بے شمار جانی قربانیاں دے کر جمہوریت کے پودے کو سینچا اور اقتدارِ کُل والوں کو پیچھے دھکیلا۔آج دنیا میں جو بادشاہ یا بادشاہتیں رہ گئی ہیں ان کی حیثیت ربڑ کی مہر سے کچھ زیادہ نہیں۔ ان بادشاہوں نے بھی انتہائی دور اندیشی اور باریک بینی سے حالات کا مشاہدہ کیا اور قوم اور حکومتوں کے تیور دیکھتے ہوئے بغیر محسوس کروائے قدم بہ قدم پیچھے ہٹتے گئے۔بعض ملکوں کے عوام نے بھی ان کو دیرینہ و قدیم روایات کا حصہ سمجھ کر مکمل طور پر بے دخل کرنے کی بجائے انہی کے محلوں میں تاریخی عجوبات کے طور پر مقید کر دیا۔آج کے جمہوری دور میں کاروبارِ مملکت چلانے کے راہنما اصول بنائے گئے ہیں جن کا نام دستور رکھا گیا ہے جس کی پوری دنیا میں ظاہری شکل و صورت تقریباً ایک جیسی لیکن اپنے مخصوص ملکی حالات اور یونٹوں کے آپسی تعلقات کے پیش نظر یہ ذرا مختلف بھی ہیں۔ اس میں جہاں صدارتی طرزِ حکومت ہے تو وہاں وزیراعظم چیس (Chess) کے پیادے کے طور پر چلتا ہے۔ جہاں پارلیمانی طرزِ حکومت ہے وہاں صدر ربڑ کی مہر ہاتھ میں لئے ہاتھ باندھے وزیراعظم کے اشارے کا منتظر کھڑا ہوتا ہے۔ کیمونسٹ دنیا کے دستور بالکل مختلف تھے جبکہ سوئزرلینڈ کا دستور ذرا انوکھا اور ہٹ کے ہے۔ رموزِ مملکت چلانے کا دوسرا جمہوری دستور پارلیمانی نظام کا ہے جہاں وزیراعظم ہیرو کا کردار ادا کرتا ہے جسے قومی اسمبلی کی اکثریت چُنتی ہے۔اس نظام میں صدر کا رول محض ثانوی ہوتا ہے اور اصل رول اس وقت شروع ہوتا ہے جب کوئی بحران پیدا ہو جیسے کہ انڈیا کے صدر کا ہے۔ ورنہ وہ عموماً سفیروں سے تقرر نامے وصول کرنے،عید،شب برات، دیوالی، کرسمس پر قوم کو مبارک باد دینے اور یکجہتی قائم رکھنے کی تلقین کے علاوہ قومی اسمبلی میں گزرے سالوں کے حالات و واقعات بیان کرنے تک محدود ہے۔ہمارے ہاں ماضی میں دستوری تبدیلیوں سے معلوم نہیں پڑتا تھا کہ ملک میں اصل طاقت کا منبع کون ہے بس اسی وقت پتہ چلتا ہے کہ صدر بڑی شے ہے جب محمد خان جونیجو جھنڈے والے جہاز سے اُترے اور صرف ڈنڈے والی کار پر بیٹھے یا محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم پاکستان سے بے نظیر بھٹو بن کر عام طیارے سے کراچی اُترے یا پھر نواز شریف تین دفعہ گھر کو سدھارے۔اتنے وسیع اور بے پناہ اختیارات صدر کے پاس تھے کہ کوئی بندہ یا بندی رات کو عوامی ہیرو ہے تو صبح چڑھنے سے پہلے وہ زیرو ہے۔کیا طاقت ہے پین میں۔ چرچل نے کیا خوب کہا تھا کہ Pen is Mighter Than Sowrd یعنی قلم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے دور میں صدر جو بی ڈی ممبری طرز پر منتخب شدہ ہو.... کیا وہ عوام کا حقیقی نمائندہ ہے یا کسی سیاسی جماعت کا؟اب تک کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ جس جس کا زور چلا اسمبلیوں نے اکٹھے بیٹھ کر اوپر کے اشارے پر کسی بھی متوقع اور غیرمعروف شخص کو صبح تاجدار پاکستان بنا دیا اور کئی دفعہ تو وہ شخص بطور صدر پاکستان اپنی ساری مدت صدارت گزار جاتا ہے اور ملک کے بیشتر عوام کو اس کا حدود اربعہ تک معلوم نہیں ہو پاتا۔ ویسے تو بقول ہمارے ”اصل“ حکمرانوں کی سوچ کے جو پاکستانی عوام کو درخوراعتناءہی نہیں سمجھتے، بقول اُن کے ایسے اہم فیصلوں اور معاملات سے عوام کا کیاتعلق ہے۔ بس عوام کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اُن کو یہ خبر ملے کہ معین قریشی وزیراعظم بن گئے، کس نے ان کو Recomend ، کس نے انہیں چنا، کون سی دستوری شق کے تحت ان کو ملک کا وزیراعظم چنا گیا اور وہ کہاں سے آئے۔ ملک کے 22 کروڑ عوام خالی الذہن رہتے ہیں۔ یہی حال شوکت عزیز کی درآمد کا تھا۔
خیر چھوڑئیے ان باتوں کو یہ اوپر کی باتیں ہیں اور اوپر کی باتیں اوپر والے ہی جانیں یا پھر ان سے اوپر والا۔
جونیجو، بے نظیر اور نواز شریف کے حشر دیکھ کر جیسے سانپ کا ڈسا رَسّی سے بھی ڈرتا ہے کہ مصداق حفظ ماتقدم کے طور پر صدر کے قلم کی جو درگت حالیہ دستوری ترمیموں سے کی گئی ہے وہ بھی ٹھیک نہیں نہ ایسے عہدے کے شایان شان ہے۔اب ضرورت یہ ہے جیسا کہ اوپر عرض کیا کہ کوئی گھڑ بھینسا قسم کی ترمیمیں لاکر دونوں کے اختیارات میں معقول توازن لانا چاہئے۔ویسے تو جب ہونی کو منظورہوتا ہے تو پھر اپنا لایا ہوا صدر بھی جیسے فاروق لغاری بو کاٹا بو کاٹا کے نعرے لگا دیتا تھا۔بات کدھر سے کدھر نکل گئی ہم صدر مملکت کے رول کی بات کر رہے تھے جو ضمانت ہوتا ہے ملک کی یکجہتی، سلامتی، دستور کی نگہبانی، عوام کی بھلائی اور حکومتی ٹریفک کے صحیح سمت لے جانے کی۔آج بظاہر پاکستان کی سب سے اہم اور بڑی کرسی کا انتخاب ہونے جا رہا ہے جس کا فیصلہ ایک الیکٹورل کالج جس کی تعداد سات سو چھ کے قریب ہے جو بذریعہ ووٹ اس نمائشی عہدے کا انتخاب کریں گے۔چونکہ بلوچستان اسمبلی میں ممبران کی تعداد 65 ہے لہٰذا ووٹوں کی بنیادی اکائی فکس کر کے یہ انتخاب اُسی تناسب سے ووٹ ڈلوا کر ہو گا۔
موجودہ نظام میں صدر کا عہدہ ایک نمائشی عہدہ بھی نہیں رہا لیکن اس نمائش پر اس بے آسرا قوم کے اربوں روپے سالانہ برباد کر دئیے جاتے ہیں۔گونگا بہرا صدر آخر اُس کی کیا افادیت ہے اس بی ڈی نظام کے تحت اُس کے انتخاب کی۔اب تو اس عہدے کا مذاق چل پڑا ہے کہ سال میں ایک دفعہ صدر کو دھوپ لگوائی جاتی ہے۔اگر واقعی آپ نے اس قوم کا اتحاد دیکھنا ہے اور صدر کو بائیس کروڑ عوام کا متفقہ سرپرست اور راہنما دیکھنا ہے اور اگر اُسے پدرانہ حیثیت دینی ہے تو پھر ہماری تجویز ہے کہ سارے پاکستانی عوام کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعے اُسے چنیں۔ یوں چنیدہ صدر نہ سُنّی ہو گا، نہ شیعہ، نہ دیوبندی، نہ بریلوی نہ کچھ اور نہ پنجابی، نہ بلوچی، نہ سندھی، نہ پٹھان۔ وہ صراطِ مستقیم پر چلنے والا مسلمان جو سیاسی وابستگی والا نہ ہو اور پُرخلوص سچا دردِدل والا پاکستانی ہو تاکہ قوم کا بچہ بچہ کہے کہ وہ میرا صدر ہے۔ ہاں البتہ صدر مملکت کسی پختہ عمر، صاحب تعلیم و بصیرت، محب وطن شخص کو ہونا چاہئے جس کی عمر 65 سال سے کم نہ ہو تاکہ بوقت ضرورت وہ اپنے تجربے کی روشنی میں قوم کی راہنمائی کر سکے اور ملک کے وسیع تر مفاد کا نگران ہو اور عوام کے حقوق کا محافظ۔
معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم حکومتوں نے اپنے نمائشی سربراہان مملکت کے کَس بل بھی نکال دئیے۔ اُن کا زہر بھی نکال دیا لیکن پھر بھی اُن کے نمائشی سربراہ ہمارے صدر سے اختیارات میں بہت آگے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ دن بدن اُن کو محدود کیا جا رہا ہے۔