جج کو مار دیا گیا اس سے بڑی بدنامی کیا ہو گی‘ بلوچستان کے معاملات آئین کے تحت نہیں چلائے جا رہے : چیف جسٹس
کوئٹہ (بیورو رپورٹ + نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ ہر کوئی محسوس کر رہا ہے کہ صوبے کے معاملات آئین کے تحت نہیں چلائے جا رہے۔ سیشن جج کے قتل کے بعد حکومت حرکت میں نہیں آتی تو باقی کیا رہ جائے گا۔ سپریم کورٹ رجسٹری کوئٹہ میں جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت تین رکنی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ اہل سنت، اہل تشیع کیوں قتل ہو رہے ہیں۔ چھ ماہ میں کتنے لوگ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے رپورٹ پیش کی جائے اور فرقہ وارانہ واقعات میں ملوث عناصر کو بے نقاب کیا جائے۔ انہوں نے کہا صرف ایک دن میں ہزارہ کمیونٹی کے سات افراد کو بے دردی سے قتل کیا گیا جو کچھ بلوچستان میں ہو رہا ہے وفاقی حکومت کے نوٹس میں ہے۔ تمام پولیس ایریا میں بدامنی بڑھ رہی ہے جج کو بھی مار دیا گیا۔ اس سے بڑی اور کیا ناکامی ہو گی۔ صوبے کے حالات آئین کے تحت نہیں چلائے جا رہے اور اس بات کو ہر کوئی محسوس کر رہا ہے۔ جسٹس خلجی نے ریمارکس دیے کہ جج کوقتل کرنےوالے ملزموں کا پیچھا نہیں کیا گیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہر روز فرقہ وارانہ کلنگ ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ مزید کتنے بچوں کو یتیم کریں گے۔ سکول بند، اساتذہ چلے گئے اور ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی ہڑتال ہے، ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی نے کہا ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی ہڑتال کا آپ کو از خود نوٹس لینا چاہیے۔ چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا آپ کو بولنے کی ضرورت نہیں۔ جسٹس خلجی کا کہنا تھا شہر میں سرعام غیر قانونی سمیں فروخت ہو رہی ہیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو آج صبح عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ئی جی ایف سی، آئی جی پولیس اور سیکرٹری داخلہ لاپتہ افراد کے حوالے سے آج رپورٹ جمع کرائیں، اگر رپورٹ سے مطمئن نہ ہوئے تو سیکرٹری دفاع، سیکرٹری قانون سمیت سب کو طلب کریں گے۔ لاپتہ افراد اب تک کیوں بازیاب نہیں ہوئے۔ چیف جسٹس نے پوچھا اب تک امن و امان کے حوالے سے کیا ہوا؟ بلوچستان کو چھوڑیں، کوئٹہ کی بتائیں جس پر ایڈووکیٹ جنرل کا بیان تھا کہ لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا اور لاشیں ملنے کا سلسلہ بھی کم ہوا ہے اور اغوا برائے تاوان کے علاوہ سب معاملات میں پیش رفت ہوئی ہے۔ خضدار محفوظ ہے نہ بولان، سمگلنگ کی گاڑیاں چلتی ہیں اسلحہ لے کر لوگ دندناتے پھرتے ہیں، راہداریاں کس نے دی ہیں۔ ایجنسیوں نے یا محکمہ داخلہ نے ؟ ایک موقع پر چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ وہ انہیں آج شہر کا دورہ کرائیں کہ کوئی نوگو ایریا نہیں۔ صوبے میں امن و امان کے حوالے سے متعلقہ حکام کی جانب سے صرف زبانی جمع خرچ ہو رہا ہے امن و امان کے باعث لوگ پنجاب، سندھ اور دوسرے علاقوں میں ہجرت کر رہے ہیں، ایک موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آج اٹارنی جنرل عدالت میں کیوں نہیں آئے۔ جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے، وفاقی حکومت کے علم میں شاید کچھ نہیں کہ یہاں کہرام مچا ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے زور دے کرکہا کہ اٹارنی جنرل سے کہیں وہ کل عدالت میں آئیں، وہ کیسے نہیں آئیں گے۔ چیف جسٹس نے چیئرمین ایف بی آر سے استفسار کیا کہ غیرقانونی گاڑیوں کو راہداری کون دے رہاہے؟ وکیل محکمہ کسٹمز نے کہا کہ خفیہ ادارے گاڑیوں کی راہداری دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کوئی راہداری کینسل کی ہے؟ وکیل کسٹمز نے کہا کہ اگر گاڑیوں کو لیگل کرائیں تو 45 کروڑ روپے کسٹمز کو ملیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایم آئی سے کہا ہے اپنی گاڑیاں بند کرے ورنہ ہمیں لسٹ فراہم کرے۔ چیئرمین ایف بی آر ارشد علی کلیم نے عدالت کو بتایا کہ بلوچستان میں اس وقت 35 ہزار غیرقانونی گاڑیاں ہیں۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا ہمیں اس طرف نہ لے جائیں جوکہا ہے وہ کریں۔ آئی جی بلوچستان نے بتایا کہ بلوچستان پولیس کے 58 عہدے خالی ہیں چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ پولیس افسروں کو شولڈر پروموشن نہ دیں، خاتمے کا نوٹیفکیشن جاری کریں۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ قانون کو آپ سے زیادہ کون جانتا ہے۔ کیوں ہم سے کہلوانا چاہتے ہیں کہ آپ کے افسر بہت سے معاملات میں ملوث ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ امن کی رپورٹ سے مطمئن نہ ہوئے تو وفاقی سیکرٹری قانون و دفاع کو بلائیں گے۔ چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے کہا کیا ہم یہاں تماشا دیکھنے کیلئے بیٹھے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹر غلام رسول نے رہائی کیلئے ایک کروڑ روپے تاوان ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا منہ نہ کھلوائیں بعض پولیس افسر مختلف واقعات میں ملوث ہیں۔ چیف جسٹس نے آئی جی سے استفسار کیا کہ آپ کے خیال میں ہمیں کچھ پتہ نہیں؟ دریں اثنا چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ ڈاکٹر ہمارے لئے قابل احترام ہیں تاہم انکی ہڑتال غیرقانونی ہے۔ وہ آج تک ہڑتال ختم کر دیں بصورت دیگر وہ حکومت بلوچستان کو حکم دینگے کہ وہ انکے خلاف اقدامات کرے۔ اس سے قبل سیکرٹری داخلہ نصیب اللہ بازئی نے عدالت عظمی کو بتایا کہ ڈاکٹروں کے ساتھ اجلاس میں ان کے تمام تحفظات دور کر دئیے گئے اس کے باوجود ایک ماہ سے زائد عرصے سے صرف سرکاری ہسپتال بند ہیں جبکہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں ڈاکٹر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ہڑتال کے سبب غریب مریضوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ سیکرٹری صحت عصمت اللہ کاکڑ نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے ڈاکٹروں کے ہڑتال ختم نہ کرنے پر شوکاز نوٹسز تیار کئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹر ہمارے لئے محترم ہیں انہیں نوٹس جاری نہ کیا جائے افہام و تفہیم سے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کیا جائے۔