زلزلہ
زمیں چل رہی ہے یہ اس کا چلن ہے
کہ لمحوں کی زنجیر پہنے ہوئے کتنی صدیوں سے کروٹ بہ کروٹ سرکتی ہوئی جارہی ہے
اسے اپنے سینے میں پوشیدہ لادے نے مضطر رکھا ہے
اسے اپنی رگ رگ میں پھیلے ہوئے گرم سیال کے
اس تلاطم کو بھی ہے چھپانا‘ لگانا
کہ صدیوں سے اس کا تو کوئی بھی محرم نہیں ہے
کسے ہے خبر اس کے سینے پہ کہسارکب سے کھڑے ہیں
چمکدار فرقت کے صحرا میں اڑتی ہوئی ریت اس کے سراپے میں چبھتی ہے کب سے
بہت شک ماتھا ہے اور اس کا چہرہ
گراں باراشکوں سے نمکین بحروں میں ڈوبا ہوا ہے ازل سے
وہ لیتی ہے سسکی تو ہلتا ہے اس کا بدن چند لمحے
وگرنہ زباں اپنی دانتوں میں دابے
خموشی سے خود پہ سہارے ہے صدیاں
گزارے ہے صدیاں
(پروفیسر شاذیہ اکبر‘ اسلام آباد)