قائد اعظم کا پاکستان اور بیوروکریسی
قائد اعظم محمد علی جناح نے25مارچ1948کو چٹا کانگ میں بنگالی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’آپ کو اپنا فرض منصبی خادموں کی طرح انجام دینا ہے آپ کو اس سیاسی جماعت یا اس سیاسی جماعت سے کوئی سروکار نہیںیہ آپ کا کام نہیں یہ سیاست دانوں کا کام ہے کہ و ہ موجودہ آئین یا آئندہ آئین جو بالآخر تشکیل پائے گا کے تحت اپنے موقف کے لئے لڑیں آپ سرکاری ملازم میں جس جماعت کو اکثریت حاصل ہوگی وہ حکومت بنائے گی اور آپ کا فرض ہے کہ آپ وقتی طور پر اس حکومت کی خدمت ملازمین کی طرح کریں' سیاست دانوں کی طرح نہیں' یہ آپ کیسے کریں گے،،
وقتی طور پر اقتدار میں آنے والی حکومت بھی اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرے اور سمجھے کہ آپ کو اس پارٹی یا اس پارٹی کی خاطر استعمال نہ کیا جائے' مجھے علم ہے کہ ہم پرپرانے ورثے' پرانی ذہنیت اور پرانی نفسیات کا غلبہ ہے اور سائے کی طرح ہمارا تعاقب کرتا ہے لیکن اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ عوام کے سچے خادموں کی طرح کام کریں-آپ اپنے فرائض منصبی سچے ملازمین کی طرح سرانجام دیں اور بحیثیت سرکاری ملازم اپنے فرائض کی بجا آوری میں کسی وزیر یا وزارت کی مداخلت کے باجود خطرہ بھی مول لیں۔قائد اعظم کا افسر شاہی سے مخاطب ہوکر یہ کہنا تھا کہ سول سروس پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں وزیر اعظم بدلتے رہتے ۔ہیں اور وزراء کرام بھی آتے جاتے رہتے ہیں مگر آپ لوگ اپنی جگہ پر مستحکم ہیں آپ کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے-
نئے وطن میں سیاست دان ناپختہ اور ان کے مقابلے میں سو ل آفیسرز برطانوی راج کے تربیت یافتہ' قائد اعظم نے بیورو کریسی کی اس طاقت کو بھانپ کر ہی سیاست دانوں کے ہاتھوں بیورو کریٹ کی طاقت کا استعمال یا بیورو کریسی کا سیاست میں عمل دخل ان دونوں امکانات کو روکنے کے لئے جا بجا افسر شاہی کو آگاہ کیا کہ بلیک لسٹ ہوجانا مگر کسی سیاست دان کے لئے اصول سے پیچھے نہ ہٹنا-مگر ہوا کیا؟لیاقت علی خان جو منجھے ہوئے سیاست دان تھے مگر افسر شاہی نے ان کے زمانے سے ہی طاقت کے مظاہرے شروع کردیئے تھے۔چوہدری محمد علی نے کیبنٹ کمیٹی تشکیل دی جس میں سب بیورو کریٹس پالیسیاں بناتے اور کیبنٹ میں رسمی طور پر پاس ہونے کے لئے پیش کردی جاتیں-مقابلے کا امتحان پاس کرکے آنے والے اپنے آپ کو نفسیاتی طور پر سیاست دان کے مقابلے زیادہ قابل اور ہوشیار سمجھتے تھے-
ایوب خان کی پارٹی افسر شاہی کی ہی جماعت سمجھتی جاتی تھی-کنونشن مسلم لیگ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل نے تو ایوب خان کو یہاں تک مشورہ دے دیا تھا کہ وہ ہر ضلع میں اپنی جماعت کا ضلعی سیکرٹری جنرل ڈپٹی کمشنر کو نامزد کردیں۔کہا جاتا ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی الیکشن میں جس دھاندلی سے ہرایا گیا اس کی سازشیں بھی انہیں دفاتر میں کی گئیں اور پھر افسر شاہی پر سب سے پہلا اور شدید وار بھی اسی دور میں ہوا-جب ملٹری بیورو کریسی اور سول بیورو کریسی کے درمیان طاقت کا مقابلہ جاری تھا تو ایوب خان نے سول سکریننگ رپورٹ کی آڑ میں کئی سول آفیسرز کی تنزلی اور برخاستگی کے آرڈر جاری کئے اس دن سے یہ تلوار بیوروکریسی کے سر پر لٹک رہی ہے۔انفرادی طور پر تنزلی اور بر خاستگی کے خوف نے اس طاقتور جن کو جادو گر بنا دیا-اس نے سیاسی یا فوجی جو بھی حکومت رہی اس کے اشارہ پر سرخم کرنے اور اس تابعداری کے عوض ایک غیر مشروط طاقت کو حاصل کرنے کا فن جان لیا۔آقا کے حکم کی بجا آوری اور عوام سے ایک خاص قسم کا فاصلہ رکھنا' نوکر شاہی کی یہ عادت نئی نہیں تھی بلکہ برطانوی دور سے چلی آرہی تھی پھر یہ ادارہ مستحکم ہوتا گیا گو کہ انفرادی طور پر بیوروکریٹ آتے جاتے رہے- گورنر جنرل غلام محمد' محمد علی بوگرہ' چوہدری محمد علی اور سکندر مرزا یہ سب بیورو کریٹس11سال تک صدر' وزیر اعظم رہے(جاری ہے)