ہم مثالی قوم کیوں نہ بن سکے ؟
بد قسمتی کی بات ہے کہ جس جوش و جذبے اور منشا اور مقصد کے تحت یہ ملک حاصل کیا گیا تھا ،وہ منشا اور مقصد پورا نہیں ہو سکا ہے ،اور جو خواب ہمارے بزرگوں نے اس ملک کے لیے دیکھے تھے وہ خواب بھی تعبیر سے پہلے ہی ختم ہو کر رہ گئے ہیں ۔اور اس ملک کی تعمیر اور ترقی کا جو مینیو بنایا گیا تھا وہ ،وہ آج نہ ذہنوں میں موجود ہے نہ ہی کتابوں میں ہے شاید کہیں پر گمنام لفافوں میں ضرور موجود ہو ۔جو مثالی ریاست پاکستان نے بننا تھا وہ نہیں بن سکا ہے ،اور آج بھی اس ملک کی معیشت اور سیاست سسک رہی ہے ۔پاکستان ایک عظیم مملکت بننے کے لیے بنا تھا لیکن آج تک یہ ملک ترقی کی دوڑ میں پیچھے سے پیچھے ہی رہتا چلا جا رہا ہے ۔ہم مثالی قوم تو نہ بن سکے لیکن ملک کو دولخت ضرور کر دیا ۔ملک کے دوسرے حصے کو جس کو کہ ہم اپنے اوپر غیر ضروری بوجھ سمجھتے تھے اس کو ہم نے خود اپنی قوت بازو سے اپنے آپ سے الگ کرکے رکھ دیا اور جو باقی پاکستان جو کہ اس وقت مغربی پاکستان تھا اس کو ہم نے اس کی اکا ئیوں کو صوبوں کی صورت میں بحال کر دیا ۔بلوچستان کی صورتحال باقی ملک سے کچھ مختلف تھی کیونکہ آدھا بلوچستان برٹش بلوچستان تھا جو کہ ون یونٹ کے دوران کوئٹہ ڈویژن پر مشتمل تھا اور باقی آدھا بلوچستان ریاست قلات پر مبنی تھا جو کہ قلات ،مکران اور خاران تھے ،یہ ون یونٹ میں قلات ڈویژن کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ون یونٹ چھوٹے صوبوں کی منشہ کے بغیر بنایا گیا تھا ۔لیکن یہ سب ماضی کی کہانیاں ہیں ہمیں آگے کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے ۔آج ایک جمہوری پاکستان ہے لیکن صرف ایک نام کا جمہور ہے ،لیکن جمہورت صرف اور صرف ووٹ مانگنے اور ووٹ دینے الیکشن تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک مکمل نظام ہے اس کے رویے مختلف ہیں قانون کی حکمرانی اور اس کی مکمل عمل داری بھی جمہوریت کا حصہ ہے جب تک کہ کوئی ملک قانون کی حکمرانی یقینی نہیں بناتا ہے تب تک وہ ملک پیچھے رہتا چلا جاتا ہے ،اور اس ملک کی جمہورت بھی مکمل نہیں ہوتی ہے ۔جب تک قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی ہے تب تک ہر اکائی اپنے محور میں کام نہیں کرتی ہے اور جب تک تمام اکا ئیاں اپنے محور میں کام نہیں کرتی ہیں تب تک جمہوریت ہی ایک دھنکونسلا ہو گی ۔جب تک ایک اسمبلی نہ ہو اور اسمبلی میں مسائل پر سیر حاصل گفتگو نہ ہو اور اس گفتگو کو کسی بھی صورت میں محدود نہ کیا جائے اور اس کے بعد س سیر حاصل گفتگو سے مسا ئل کا حل جب تک نہ نکلے تب تک ملک آگے نہیں بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی جمہوریت مضبوط ہو سکتی ہے ۔تب تک برائیوں کا سدباب نہیں کیا جاسکتا ہے ۔جب تک قومی اور صوبائی اسمبلیاں سال میں 300روز سیشن میں نہ ہو اور جب تک دن رات کام نہ کیا جائے تب تک مسائل کا حل نہیں نکلے گا ۔ممبر صاحبان کی دوڑ دھوپ جب تک اپنے حلقوں تک محدود رہے گی تب تک بات نہیں بنے گی ،قانون ساز اسمبلیوں کے ممبران کا کام حلقوں کے کام کروانا نہیں ہو تا ہے بلکہ ،قانون سازی کرکے عوام کے بنیادی مسائل کا حل نکالنا ہو تا ہے ۔قومی اسمبلی یا سینیٹ کے ممبران ملک کے نمائندہ ہو تے ہیں اور ملک کا سرما یہ ہو تے ہیں اور ان کو پورے ملک کے لیے کا رآمد ہونا ہو تا ہے ۔لیکن بد قسمتی سے ہمارے ممبران کو ترقیاتی فنڈز کی دوڑ میں ایسا بند کر دیا گیا ہے کہ وہ اس سے آگے دیکھ ہی نہیں پاتے ہیں اور ان کی دوڑ دھوپ بھی بس یہی تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ممبران زیادہ سے زیادہ اپنے حلقے یا پارٹی تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اس سے آگے ان کی سوچ ہی نہیں جاتی ہے ۔قانون کی عمل داری کے ساتھ ساتھ دستور ساز اسمبلی کو بھی پوری ایمانت ،صداقت اور دیانت کے ساتھ ساتھ مکمل ایمان داری کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ان کو اپنے رول کو ڈفائن کرنا ہو گا اسی طرح سے وہ اپنا کام بہتر انداز میں سر انجام دے سکتے ہیں ۔
ہماری جو اس وقت تباہی بر پا ہے وہ ،ہماری ناکامیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ہماری عدلیہ اور پارلیمان کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ،عدلیہ کا صیح معنوں میں فنکشن کرنا اور اس کے بعد دستو ر ساز ہاوسز کا درست انداز میں کام کرنا اور اس کے ممبران کا اسلام آباد پر زیادہ توجہ دینا اہمیت کا حامل ہے ،ہمارے ارکان کو ملکی معیشت ،سیکورٹی سمیت دیگر معاملات پر کلیدی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے صرف اپنے حلقوں اور گلی اور نالی بنانے کے کام میں پڑ جا ئیں گے تو ملک کی پالیسی میں پارلیمان کا کردار کم ہو تا چلا جائے گا اور یہ کام صرف حکومت کے ہاتھ میں جائے گا ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہو گا اور اس کے نتیجے میں ملک کی کلیدی پالیسی غلط سمت میں جاسکتی ہے اور ملک کا نقصان ہو سکتا ہے اور ہو بھی رہا ہے ۔اس ما ئنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بات کلیدی اہمیت کی حامل ہے ،کہ یہ قانون بننا چاہیے اور الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے قانون سازی کروانی چاہیے کہ جو بھی اسمبلی کا رکن منتخب ہو گا وہ کسی صورت میں بھی وفاقی یا صوبائی حکومت سے کو ئی فنڈ نہیں لے سکے گا ۔اس حوالے سے درخواست بھی نہیں کر سکے گا ۔یہ فیصلہ وقت کی ضرورت ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر کرنا چاہیے ۔اس ملک کو آگے بڑھانا ہے اگرچہ کہ حالات مشکل ہیں لیکن پھر بھی ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ،ہمیں اس ملک کو آگے لے کر چلنا ہے عدلیہ اور پارلیمان کا اس حوالے سے کلیدی کردار ہے بہتر انداز میں آگے جا ئیں گے تو ہی ملک آگے بڑھے گا ۔