میں ان کا مجرم ہوں

یہ تحریر میں نے 2020میں انگریزی میں لکھی تھی آج اسے اردو میں قلم بند کرنے کی کاوش کر رہا ہوں۔ یہ کاوش خواجہ سراء کمیونٹی کو درپیش مسائل کے حل کی طرف توجہ دلانے کے لیے لکھ رہا ہوں۔ میں یہ اپنے معاشرے کے سب سے خوبصورت، حساس، قابل لیکن اتنے ہی پسماندہ افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے لکھ رہا ہوں۔ میں یہ ان کو بتانے کے لیے بھی لکھ رہا ہوں کہ میں ان کے خلاف تمام تعصبات کا مشاہدہ کرتے ہوئے کبھی بات نہ کرنے، کبھی انکی حالت پر ترس نہ کھانے بلکے انجانے میں اس تعصب کے فروغ میں پیش پیش رہنے پر کتنا معذرت خواہ ہوں۔ میں یہ اعتراف کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں کہ ایک معاشرے کے طور پر، ہم نے ٹرانس جینڈ فوبیا کی تمام علامات ظاہر کی ہیں، ان کو جارحیت، تشدد اور نا انصافی کا سامنا کرنے کا خطرہ زیادہ ہے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم معاملے کی سنگینی کو محسوس کریں اور ان کے حقوق کے لیے کھڑے ہوں، اور انفرادی اور اجتماعی سطح پر، زیادہ روادار، زیادہ جامع اور زیادہ حساس معاشرے کے قیام کے لیے اپنا حصہ ڈالیں۔
’’میں ان کا مجرم ہوں‘‘
خدا کے چند خوبصورت بچے
اپنے ہی گھروں سے باہر پھینک دئے گئے
اور وہ سڑکوں پر بھٹکنے پر مجبور ہو گئے
انھیں نکالا گیا اس گناہ کی وجہ سے
جس کے ساتھ وہ پیدا ہوئے تھے
انھیں نکال باہر کیا ہم نے
کے وہ اب زندہ رہنے کے لیے
طرح طرح کے کام کریں
وہ اب ننگے پیر کھڑے ہو کر
ہمارے خوش وضع جوتے پالش کرتے ہیں
وہ شور مچاتی بھیڑ کے بیچ
گر رقص نہ کریں تو بھوکے سوتے ہیں
لیکن میں خاموش تماشائی بنا رہا
اور ان کے حق کی بات نہ کی
میں ان کا مجرم ہوں
جس گلی میں انکو نیا گھر ملا
وہاں انجان درندے ان کو پیٹا کرتے
اس پر تشدد ماحول میں بھی
کچھ دوست نئے تو مل جاتے ہیں
اب تنہائی، نشہ اور کچھ جعل ساز
یار ہیں انکے اور اسکول بھی ہیں
میں نے اس کلی کو مجبور کیا
کے دھوکہ بازوں کے ہاتھوں پروان چڑھیں
اب پھل کی توقع کس منہ سے کروں میں؟
پھر بھی میں نے ان کے حق کی بات نہ کی
میں ان کا مجرم ہوں
میں نے انہیں سکول سے محروم کر دیا
قانون اور حکمرانی کو جاننے سے بھی
ان کے ارد گرد کی دنیا سے بھی
جو بے رحم ہے، بد لحاظ ہے
جو دھونس جماتی ہے، حراساں کرتی ہے
جبکہ میں، بے خبر اور بے حس مگن رہا
اور ان کے حق کی بات نہ کی
میں ان کا مجرم ہوں
انہیں ، کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی
اور ان کے ساتھ وہ برتاؤ رکھا کہ توبہ
ایک ادنیٰ خدا کی مخلوق ہیں وہ
پھر گھنگرو، ناچ سے ناتا جوڑا
جب ضرورت تھی کہ یہ جگہ کتابیں لیتی
جب فارغ ہو کر بیٹھ گئے وہ
میں نے ان کو ایک کشکول تھما دی
میں کس منہ سے ان کے حق پہ بولوں
جب میں ہی ان کا مجرم ہوں
جب کہ میں نے انہیں اندھیروں میں
برباد ہونے کو چھوڑ دیا
پر انہوں نے سب کو غلط ثابت کیا
اور مصائب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے
مشکل کے سامنے ڈٹ جانا سیکھا
ظلم کے آگے دیوار بن کر
جم کے کھڑا ہونا سیکھا
لیکن میں نے ان کے حق کی بات نہ کی
میں ان کا مجرم ہوں
وہ لیتے رہے جو معاشرے نے انھیں دیا
اور ان بوسیدہ، تیسرے درجے کے تحائف کو
خوبصورت زیور میں ڈھال کر پہنتے رہے
وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں
لیکن ایک خوبصورت مسکراہٹ پہنے ہوئے
انہوں نے اپنے اوپر طنز میں سکون پایا
انہوں نے اپنے تمسخر کا ایک گھر بنا کر
اس میں رہنے میں مہارت حاصل کر لی
اور اس طرح تو وہ روزی کماتے ہیں
یہی تو انکا پیشہ ہے
جو انہوں نے نہیں، میں نے چنا ہے
یہ ہیں ہمارے سب سے پسماندہ انسان
پھر بھی میں نے ان کے حق کی بات نہ کی
میں ان کا مجرم ہوں
وہ مظلوم، محکوم ، اور دبے ہوئے ہیں
پھر بھی پرعزم اور مضبوط کھڑے ہیں
تمام مصیبتوں اور نہ انصافیوں کے آگے
مذاق، حقارت اور نفرت کے آگے
میری تمھاری ثقافت کے آگے
زمانے نے انکو بیگانہ کیا ہے
جیسے انساں سے ہٹ کے کوئی اور شے ہو
اور میں نے ان کے حق کی بات نہیں کی
میں ان کا مجرم ہوں
میں آپ کو بتاوں میں کیا جانتا ہوں
وہ تمام جنگیں اکیلے لڑتے ہیں
وہ مجاھد، بہادر اور مضبوط ہیں
وہ ہشاش بشاش ہیں مسرور ہیں
مسرت اور مستی سے بھرپور ہیں
وہ حساس ہیں اور کشادہ دل بھی
وہ خدا کی ایک اور عمدہ تخلیق ہیں
وہ ہنر مند بھی ہیں اور ماہر بھی ہیں
وہ ہوشیار بھی ہیں اور زہین بھی ہیں
پر وہ گونگے ابھی تک ہیں، خاموش ہیں
کیونکہ میں ان کو خاموش کرتا رہا ہوں
میں ان کی آواز دباتا رہا ہوں
اور نہ میں نے انہیں بولنے دیا
نہ خود ان کے حق کی بات کی
میں ان کا مجرم ہوں
انکے پاؤں کے زخم تو بھر جائیں گے
ان کے دل پے جو چھالے ہیں کون بھرے گا
میں خطا کار، افسردہ ہوں، شرمسار ہوں
کیونکہ میں نے ان کے حق کی بات نہ کی
میں ان کا مجرم ہوں