8اکتوبر2005ئکا زلزلہ، زخم ابھی تک تازہ ہیں ( 1)
8اکتوبر 2005ئکا زلزلہ ہمارے بچپن کی معصوم خوشیاں، جوانی کا بانکپن اور بڑھاپے کا وقار سب کچھ اپنے ساتھ لے گیا اور پیچھے وہ المناک یادیں باقی رہ گئیںجن سے ہمارے دل داغ داغ ہیں۔ میری عزیز ازجان دوست آزاد کشمیر کی سحر انگیز شخصیت بیگم شیریں وحید اس وقت وزیر سماجی بہبود و امور خواتین کے منصب پر فائز تھیں۔ مجھے کچھ یادنہیںشیریں سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی؟ غالباً پچاس کی دہائی میں جب ہم سرینگر سے وزیر آباد، راولپنڈی اور مری میں پناہ ڈھونڈتے اور والد محترم کے ساتھ جہاد آزادی کشمیر کی آبلہ پائی کرتے مظفرآباد آ گئے۔ سکول میں میری پہلی دوستی زینت حمید خان سے ہوئی۔ سرخ و سفید رنگت اور گیھنگریالے بالوں والی یہ گول مٹول سی خوبصورت بچی ہر ایک کو اپنی طرف کھینچتی۔ ہم دونوں اجنبی تھیں اس لئے ہم ایک دوسرے کے اتنے قریب آ گئے کہ گھروں میں آنا جانا شروع ہو گیا۔ زینت کے ہاں اس کی چچا زاد بہن شیریں اور خان عبدالقیوم خان وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ کی بیٹی ثریاسے ملاقات ہوئی ۔ اس طرح سہیلیوں ایک گروپ بن گیا۔ شیریں پشاور کے کانونٹ سکول میں پڑھتی تھی لیکن موسم گرما بہار اور سرما میں کرسمیس کی دس چھٹیوں میں وہ اپنے چچا کے ہاں مظفرآباد ضرور آتیں۔ ہم تعطیلات کے دن گنتے اور شیریں کا انتظار کرتے۔ اسے انگریزی کی بہت ساری نظمیں تمثیل کے ساتھ یاد تھیں جن پر ہم ڈرامائی انداز میں ٹیبلو کھیلتے۔ وہ انگریزی روانی سے بولتی اور ہم سب اس کی نقالی کر کے محظوظ ہوتے۔ شام کو ہم سب اکھٹے ہوتے۔ مظفرآباد کا جنگ زدہ جلا ہوا شہر زیرتعمیر تھا۔ ہم ریت کے ڈھیروں پر گھروندے بناتے اور گڑیوں کو درختوں پر لٹکا دیتے۔ خان وحید زینت کا بڑا بھائی اورشیریں کاکزن تھا اور افتخار عباسی معروف آئی سپیشلسٹ ڈاکٹر محمد حیات عباسی کا بیٹا ، یہ سب ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ کبھی کبھی سب بچے ہمارے گھر میں جمع ہو جاتے۔ اباجی راولاکوٹ کالج میں پروفیسر تھے۔ جب وہ سرما کی چھٹیوں میں گھر آتے تو ہم سب آتشدان کے سامنے ان کے گرد جمع ہو جاتے اور علی گڑھ یونیورسٹی کے مشہور کردار مسٹر نامی کی شرارتوں کے قصے سن کر ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتے ۔شیریں نے ایڈورڈ کالج پشاور سے گریجویشن کی، خان عبدالوحید نے مظفرآباد ڈگری کالج سے ، میں نے گورنمنٹ کالج برائے خواتین راولپنڈی سے اورافتخار عباسی انگلینڈ چلے گئے۔ ہم نے ابھی زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا نہیں سیکھا تھا، ابھی ہم سورج کی تمازت کو چاندنی کی ٹھنڈک، نیلم جہلم کے پانیوں کی روانی، معطر ہواؤں کی سرمستی، مکڑہ پہاڑ کی برفاب نقرئی چوٹیوں پر صبح کی روپہلی کرن کی سرگوشیوں کے اسرار و رموز کو اپنے شعور میں جگہ بھی نہ دے پائے تھے کہ ایک دن خاندانی روایات کے مطابق شیریں اور وحید رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے ۔کچھ عرصہ بعد زینت اور افتخار عباسی کی بھی شادی ہو گئی تب ہمیں احساس ہوا کہ ہم لوگ ظاہر و باطن میں کتنے خوبصورت ، کتنے معصوم، سادہ اور آغوش فطرت میں خود فراموشی کی کیفیت میں محو تھے۔شادی کے بعد شیریں سے میری پہلی ملاقات چیف سیکرٹری ہاؤس میں بیگم عبدالباری کے ہاں گرل گائیڈز کی تنظیم نو کے سلسلہ میں منعقدہ تقریب میں ہوئی وہ شہر کی ہر سرگرمی میں پیش پیش ہوتی۔ اس تقریب میں وہ صدر آزاد کشمیر کی بہو کی حیثیت سے اہم ترین شخصیت اور مرکز نگاہ تھی۔ اب شیریں کی زندگی کا عوامی دور شروع ہو چکا تھا۔ وہ بیک وقت صدر آزاد کشمیرخان عبدالحمید خان کی بہو، وفاقی وزیر داخلہ خان عبدالقیوم خان کی بھتیجی، معروف قانون دان عبدالرؤف خان کی بیٹی اور ابھرتے ہوئے سیاستدان خان عبدالوحید خان کی بیوی تھیں۔ لیکن وہ تو ہر پہلو میں بے مثال تھی حسن و صورت اور حسن سیرت کے ساتھ وہ ایک ایسا سایہ دار درخت تھی جس کی آسودگی ہر ایک کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ مشترکہ خاندانی نظام میں ایک بہت بڑے خاندان کی روایات کو نبھانے، ہر ایک کو خوش رکھنے، ہر ایک کا خیال رکھنے اور سب کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہوئے سب کو تسبیح کے دانوں کی طرح پرو کر رکھتے ہوئے چار دیواری کے باہر خاندانی وقار اور عزت ا حتشام کی حفاظت کی ذمہ داری اس نے خود ہی اپنے سر لے لی تھی۔ (جاری ہے)