سابق وزیراعظم عمران خان دفاعی اداروں کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ وہ ایک سیاسی محاذ پر ہیں لیکن اس محاذ پر وہ اپنے ہی دفاعی اداروں پر مسلسل تنقید کر رہے ہیں۔ بنیادی طور پر وہ عوامی مقبولیت کو استعمال کرتے ہوئے دوبارہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت چاہتے ہیں اس مقصد میں انہیں اب تک کامیابی نہیں مل سکی اور جس انداز میں وہ آگے بڑھ رہے ہیں مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا۔ اس کی بہت سادہ وجہ یہ ہے کہ جب آپ سارے پتے کھیل جائیں تو واپسی کا راستہ نہیں بچتا یا پھر واپسی اس انداز سے نہیں ہوتی جس انداز کی آپ خواہش رکھتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ٹیکسلا میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بھی انہوں نے نامناسب الفاظ استعمال کیے۔ حالانکہ اس سے پہلے مختلف وقتوں میں اداروں کے حوالے سے نامناسب گفتگو کر چکے ہیں۔ ان کی جماعت کے دیگر لوگ بھی ایسی ہی زیان استعمال کرتے رہتے ہیں وہ سب یہ جانتے ہیں کہ ایسے بیانات سے حکومت میں واپسی یا تعلقات میں بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ اسی جارحانہ اور نامناسب انداز میں گفتگو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ خان صاحب کو یہ سمجھ جانا چاہیے کہ ملکی سیاست میں صرف وہی ایماندار نہیں ہیں نہ ہی پاکستان کی سیاست میں سب بے ایمان چور اور عہدے کا ناجائز استعمال کرنے والے ہیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو یہ بھی سمجھ جانا چاہیے کہ سیاسی سوچ میں وسعت ضروری ہے اگر آپ مختلف سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت سے عاری ہیں تو پھر قومی سیاست میں آگے بڑھنا مشکل ہے۔ یہ رویہ ہمارے زمینی حقائق سے بھی متصادم ہے۔ یہ سوچ جمہوری روایات کی بھی مخالفت کرتی ہے۔ ایک طرف وہ مخالف سیاسی قیادت کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں دوسری طرف ریاستی اداروں پر چڑھائی کر رہے ہیں۔ یہ رویہ ایک قومی سطح کے سیاستدان کو زیب نہیں دیتا۔ یہ درست ہے کہ مسلم لیگ نون اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی ماضی میں دفاعی اداروں پر تنقید کرتی رہی ہیں لیکن ان جماعتوں میں ایک طرف اعلیٰ سطح کی قیادت ریاستی اداروں کے خلاف ہونے والی گفتگو کے اثر کو شائل کرنے کی بھی مسلسل کوششیں کرتی رہی ہے۔ جب کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے پاس ایسا کوئی آپشن نہیں ہے۔ یہ سب تنقیدی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بالخصوص آڈیو لیکس کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کو بیک فٹ پر آنا پڑا ہے۔ وہ لاکھ کہتے رہیں کہ کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ایسے واقعات کے بعد فرق ضرور پڑتا ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پانامہ لیکس کسی کا سب کچھ بہا کر لے جائے اور کسی کو آڈیو لیکس سے کوئی فرق نہ پڑے۔ خان صاحب ایک مرتبہ پھر جمع تفریق میں غلطی کر رہے ہیں اور فاش غلطی کر رہے ہیں۔ انہیں اپنی سیاسی تحریک کو سیاسی میدان میں لڑنا چاہیے۔ سیاسی قیادت کا مقابلہ سیاسی انداز میں کرنے کو ترجیح دیں۔ اداروں کو سیاسی مقاصد کے لیے ابھارنا یا انہیں نشانہ بنانا اور عوامی سطح پر نفرت پھیلانا مناسب عمل نہیں اور یہ کسی بھی طریقے سے ملک و قوم کی خدمت نہیں ہے۔ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اس وقت افواجِ پاکستان کو نشانہ بنا رہے ہیں جب دنیا ان کی تعریف کر رہی ہے۔ ملک میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے اور افواج پاکستان کے سربراہ امدادی سرگرمیوں اور ملک کو اس بڑے بحران سے بچانے کے لیے سرگرم ہیں۔ اس وقت اگر عمران خان اپنے دفاعی اداروں کو سیاسی اجتماعات میں زیر بحث لائیں گے تو دنیا کو کیا پیغام جائے گا۔ اس سے بڑھ کر فوج کے اندر ایسے بیانات کو نہ تو پسند کیا جائے گا نہ ہی اس کی پذیرائی کے امکانات ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ خان صاحب اپنے طرز سیاست پر کچھ غور کریں اور سیاسی مقابلے پر توجہ دیں۔ وہ سیاسی مقابلہ کر بھی سکتے ہیں پھر بھی نجانے کیوں کسی اور راستے پر چل رہے ہیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات میں سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے ملٹری ایڈوائزر جنرل بیرامے ڈیوپ نے سیلاب متاثرین کیلئے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بحران کے دوران اقوام متحدہ کے ملٹری ایڈوائزر کے کردار کو سراہا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ایک ہفتے کے دورے پر امریکا میں موجود ہیں جہاں وہ بائیڈن انتظامیہ کے سینیئر حکام سے اہم ملاقاتیں کریں گے۔ آرمی چیف کی امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن، امریکی نیشنل انٹیلی جینس ڈائریکٹر ایوریلڈی ہینز اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز سے ملاقاتوں کا امکان ہے۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے بھی ملاقات کا امکان ہے۔ خطے میں بدلتی ہوئی صورتحال اور پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کے تناظر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ دورہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اندرونی طور پر سیاسی قیادت ہر وقت اپنی سیاست اور عوامی مقبولیت میں اضافے کے لیے مظلوم بن کر عوامی حمایت کی کوششوں میں لگی رہتی ہے۔
چند ہفتے قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے رائل ملٹری اکیڈمی سینٹ ہرسٹ میں 213 ویں کمشننگ کورس کی پاسنگ آو¿ٹ پریڈ میں بھی شرکت کی تھی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اس پریڈ میں شریک ہونے والے پاکستان کے پہلے آرمی چیف تھے۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران بھی سیلاب متاثرین کی بحالی کے کیے جس انداز میں ارمی چیف نے متحرک انداز میں کام کیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی لڑائیاں خود لڑیں۔ سیاسی میدان حاضر ہے وہاں کام کریں، انتخابات میں حصہ لیں ووٹ حاصل کریں کامیابی حاصل کریں اور حکومت بنائیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024