منگل ، 7ربیع الاول 1444ھ، 4اکتوبر 2022ء
ٹی ٹونٹی سیریز انگلینڈ نے جیت لی۔پاکستانی کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ کے دورے پر روانہ
ایشیاء کپ میں انگلینڈ سے ٹی ٹونٹی ہارنے کے بعد اب ہماری ٹیم نیوزی لینڈ کے دورے پر روانہ ہو گئی ہے جہاں وہ سہ فریقی سیریز میں حصہ لے گی۔ جہاں خدا جانے وہ کیا گل کھلائے گی۔ اس ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر تو لگتا ہے وہ دورہ بھی سیر سپاٹے پر ختم ہو گا۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے ہماری ٹیم کے کھلاڑی کرکٹ کھیلنا بھول جاتے ہیں۔ لاہور میں ٹی ٹونٹی سیریز کے آخری میچ میں دیکھ لیں۔ بائولنگ، فیلڈنگ اور بیٹنگ تینوں شعبوں میں یوں لگتا تھا گلی محلے کے بچے کھیل رہے ہیں۔ بڑے بڑے نامی گرامی کھلاڑی کاغذ کے سپاہی بنے نظر آئے۔ ٹی ٹونٹی سیریز کا آخری میچ 67 رنز سے ہارنا کوئی معمولی بات نہیں بڑے دکھ کی بات ہے۔ دنیا کی نمبر ون کہلانے والی ٹیم کی یہ کارکردگی واقعی شرمناک ہے۔ کیچ ڈراپ کرنا، چوکے چھکے روکنا، لگتا تھا یہ ہمارے کھلاڑیوں کا کام نہیں تھا۔ یہ کسی اور نے آ کر کرنا تھا۔ جب بائولر گیند کرانا اور بلے باز رنز بنانا بھول جائیں تو پھر میچ کیا خاک جیتا جا سکتا ہے۔ لگتا ہے انگلینڈ کی ٹیم کو دورہ پاکستان پر خوش کرنے کے لیے سیریز جیتنے دیا گیا ہے۔ ورنہ ہماری ٹیم اتنی بودی بھی نہیں۔ اب جو ہوا سو ہوا دیکھنا ہے نیوزی لینڈ جا کر یہ ٹیم کیا کرتی ہے۔وہاں اچھا کھیل پیش کر کے ا پنی دھاک بٹھاتی ہے۔ اپنی ساکھ بحال کرتی ہے یا وہاں بھی ’’تو چل میں آیا‘‘ والا رویہ اپناتی ہے۔ لاہور میں تو تماشائی پاکستان کی شکست پر خاصے دلبرداشتہ تھے۔ اگر کھلاڑی ان کے ہتھے چڑھ جاتے تو آٹوگراف لینے کی بجائے ان کو ٹماٹروں اور انڈوں کے تحفے پیش کرتے۔
٭٭٭٭٭
حکمرانوں میں عمران خان کو ہاتھ لگانے کی ہمت نہیں۔ اسد عمر
ایسے ہی بیانات دے کر ہر متوالا، جیالا‘ ٹائیگر اپنے قائد کو الٹے سیدھے خواب دکھاتا ہے جبکہ خود رہنما کو اپنی جان کی فکر کھائے جاتی ہے۔
ایک طرف ’’لڑا دے ممولے کو شہباز سے‘‘ کا عزم بالجزم اور دوسری طرف پولیس کے ہتھے چڑھنے سے بچنے کے لیے چھٹی کے دن بھی عدالت سے ا پنی ضمانت کروانے والے کو اگر کوئی سیاست کا رستم زماں کہے تو اسے کون روک سکتا ہے۔ توہین عدالت ہو یا دھمکیاں دینا، قانون شکنی ہو یا جھوٹے الزامات، آخر کوئی کب تک کس کس الزام سے بچنے کے لیے ضمانتوں کی آڑ میں چھپتا پھرے۔ اُوپر سے ہر جلسے میں میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں۔ مجھے گرفتار کرو۔ جیل میں ڈالو میں زیادہ خطرناک ہو جائوں گا۔ وغیرہ وغیرہ جیسے فلمی ڈائیلاگ بول کر عوام کو کب تک بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہی جگر ا ہے تو پھر بسم اللہ کریں۔ دے دیں گرفتاری اور کریں خود کو عدالتوں کے سپرد۔ اس کا تو حوصلہ ہی نہیں پھر جلسوں میں نڈر ہونے کا بہادر ہونے کا تاثر کب تک قائم رہ سکتا ہے۔ اسد عمر کہہ رہے ہیں کہ حکمرانوں میں ہمت نہیں کہ عمران خان کو ہاتھ لگائیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر رونا دھونا کیوں۔ سیدھے سبھائو قانون و انصاف کو اپنا کام کرنے دیں۔ اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں کیوں، جو لوگ تاریخ میں امر ہونا چاہتے ہیں۔ وہ سقراط کی طرح زہر کا پیالہ پیتے منصور حلاج کی طرح سولی پر لٹک جاتے ہیں انہیں عدالتوں، ضمانتوں، جیلوں، ہتھکڑیوں کی فکر نہیں ہوتی۔ یوں ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر کوئی انقلابی نہیں بنتا۔ اس راہ پر چلتے ہوئے بہت سی تکالیف اٹھانا پڑتی ہیں۔ آگ اور خون کے دریا پار کرنا پڑتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
عدم برداشت منفی رویے اور طلاق کے روزانہ 150 مقدمات درج ہونے لگے
ہمارے بڑے بڑے فلسفی، دانشور، علما اور مصلحین ذرا اس طرف بھی نظر ڈالیں آخر کیا بات ہے کہ اسلامی معاشرہ کے شہری ہونے کے باوجود ہمارے ہاں آئے روز خواتین کے قتل، اغوا، زیادتی اور طلاق کے مقدمات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آسمان کیوں نہیں ٹوٹ پڑتا۔ زمین کیوں نہیں پھٹتی ان واقعات پر۔ 2021 ء میں ایک لاکھ خواتین نے طلاق کے لیے عدالتوں کا رخ کیا۔ صرف ایک روز میں درجنوں خواتین معمولی باتوں پر قتل ہوئیں یا انہوں نے خودکشی کر لی۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں سوئے ہیں۔ جامشورہ میں پڑھائی مکمل کرنے کی ضد پر شوہر نے بے دردی سے اپنی بیوی کو قتل کر دیا۔ شادی سے پہلے تو سب نے کہا ہو گا ہاں ہاں پڑھنے میں ہرج ہی کیا ہے۔ شادی کے بعد یہ اپنی پڑھائی مکمل کر لے۔ مگر جب شادی کے بعد پڑھنے کی اجازت مانگی تو جواب میں موت کا سرٹیفکیٹ مل گیا۔ صرف یہی نہیں کھاریاں میں بھی ایک حوا زادی کو شوہر نے کلہاڑیوں کے وار کر کے اس لیے اگلے جہاں پہنچا دیا کہ وہ اپنے نکھٹو شوہر کو کام جانے کا کہتی تھی تو غصہ میں آ کر شوہر نے وجہ تنازعہ ہی ختم کر دی۔ شادی بیاہ گڈے گڈی کا کھیل نہیں والدین سوچ سمجھ کر چھان پھٹک کر رشتے ناطے جوڑیں۔ ورنہ یہی قتل اور طلاقیں لاکھوں زندگیاں تباہ کرتی رہیں گی۔ عدم برداشت ان تمام فتنوں کی بڑی وجہ ہے، اوپر سے معاشی حالات ، ہمارے فرسودہ رسوم و رواج اور گھریلو تنازعات نے ہماری زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے۔ کاش ہمارے علما ، فلسفیوں اور دانشوروں نے فرائض کے ساتھ حقوق العباد پورا کرنے پر بھی زور دیاہوتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔ ہم نے معاشرے کی اصلاح سے زیادہ ذات پر زور دیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ کوئی کسی کی سنتا ہی نہیں۔ کوئی کسی کو کسی کھاتے میں لاتا ہی نہیں۔ حاجی نمازی سب ہیں مگر دھوکے فریب جھوٹ سے کوئی چوکتا نہیں۔
٭٭٭٭٭
حکومت نے روس سے تیل خریدنے کی کوششیں تیز کر دیں
خدا کرے یہ کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوں اور عوام کو پٹرولیم مصنوعات پر کچھ تو رعایت ملے۔ روس اور ایران سے اگر تیل اور گیس خریدنے میں حکومت کامیاب ہوتی ہے تو یہ اس کے نامہ اعمال میں درج ایک بڑی نیکی ہو گی جس کا اجر ووٹنگ بکسوں میں پڑے ووٹوں کی صورت میں مل سکتا ہے۔ ایران ہمارا قریب ترین ہمسایہ برادر اسلامی ملک ہے۔ وہ عرصہ دراز سے ہمیں ارزاں نرخوں پر گیس فراہم کرنے پر تیار ہے اس نے تو پائپ لائن بھی بچھا دی ہے ہماری سرحد تک مگر ہم ہیں کہ دوسروں کے ڈر سے یہ ادھورا کام مکمل نہیں کر رہے۔ دوسری طرف روس سے ہمیں تیل ارزاں نرخوں پر مل سکتا ہے۔ مگر وہی بات باقی دنیا کیا کہے گی۔ اس کیا کہے گی کی تکرار نے ہمیں ہر سطح پر نیچا ہی دکھایا ہے۔ آزاد اور خوددار ممالک اپنی پالیسیاں دوسروں کے کہنے ،سننے کی بجائے اپنے مفادات کے مطابق بناتے ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ دوسروں کی خوشنودی کی خاطر اپنے ملک و قوم کو آزمائش میں ڈالتے ہیں اور ان کی زندگیاں جہنم بنا رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی پالیسیاں خود بنائیں اور کہاں سے کیا لینا ہے اس کا فیصلہ خود کریں۔ دوستوں کو بے شک اعتماد میں لیں انہیں اپنے عوام کے مسائل اور مشکلات سے آگاہ کریں اگر وہ انہیں دور کرتے ہیں تو جی آیاں نوں۔ اگر کچھ نہیں کر سکتے تو پھر جہاں سے فائدہ ملے وہ حاصل کیا جائے کسی کو خواہ مخواہ ہمارا ماما بننے کی ضرورت نہیں۔ آخر بھارت بھی تو یہی کچھ کر رہا ہے۔ کسی نے ا س کا کیا بگاڑ لیا۔