’’دل روندا اے، کُرلاندا اے‘‘

مجھے کلاسیکل لوک گلوکاروں کو بچپن سے ہی سننے کا شوق رہا ہے۔ پاکپتن کا مکین ہونے کے ناطے فطری طور پر بزرگ صوفی پنجابی شاعر اور ولی اللہ بابا فرید گنج شکر کے صوفی ازم کا اسیر ہوں اور میری اپنی پنجابی اور اردو شاعری پر صوفی ازم کا رنگ غالب ہے۔ طبیعت کے اسی میلان نے مجھے کلاسیکل فوک سنگرز کی گائیکی کی جانب متوجہ کیا۔ بچپن میں میاں دینا کی ’’سولوقوالی‘‘ کا انداز مجھ پر سحر طاری کر دیا کرتا تھا۔ وہ ’’پاکپتن دے پیاریا‘ عشق تیرے نے موہ لئی میں‘‘ کی تان چھیڑتے تو رگ و پے میں ہلچل پیدا کرتی محسوس ہوتی۔ میاں دینا پاکپتن کے معروف قوال میاں داد خان کے ماموں تھے اور اس ناطے سے فیصل آباد کے معروف قوال نصرت فتح علی خاں کی بھی ان سے عزیزداری تھی۔ میاں داد خاں اور انکے طبلہ نواز بھائی حفیظ داد خاں نے قوالی کا مدھر سروں والا نیا انداز متعارف کرایا۔ وہ قوالی کی تان ’’اولے او میرے ڈھولنا‘‘ پر توڑتے تو سامعین و ناظرین پر سحر کی عجیب کیفیت طاری ہو جاتی۔ حفیظ داد خاں ٹریفک کے ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے تو میاں داد خاں سخت صدمے کی کیفیت میں آگئے اور انکے گلے سے نکلنے والی تانیں سوز میں ڈوب گئیں اور اسی کیفیت میں اپنے بھائی کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد وہ بھی اپنے خالقِ حقیقی کو جا ملے۔ انکے بعد انکے بیٹے بدر میاں داد ایک اور اچھوتے انداز میں قوالی کے میدان میں جلوہ گر ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے شہرت کی بلندیوں تک جا پہنچے۔ پھر بدر میاں داد کے چھوٹے بھائی شیر میاں داد بھی اپنے الگ رنگ کے ساتھ فن قوالی کو آگے بڑھاتے نظر آئے۔ بدر میاں داد کے انتقال کے بعد انکے بیٹے سکندر بدر فنِ قوالی میں اپنی خاندانی میراث کو آگے بڑھاتے نظر آتے ہیں‘ سو چراغ سے چراغ جل رہا ہے۔
میں نے اپنی نوعمری کے زمانے میں عرس بابا فرید کے موقع پر انکی درگاہ پر منعقد ہونیوالی محافل سماع میں تواتر کے ساتھ شرکت کی ہوئی ہے۔ ان محافل میں ملک بھر کے نامی گرامی قوال حضرات کا گویا فنِ قوالی میں مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ غلام فرید صابری مقبول صابری‘ نصرت فتح علی خاں‘ سنتوخاں اور سولو قوالی کے استاد عزیز میاں تو ان محافل کے شرکاء کے دلوں میں گھر کر چکے تھے۔ خدا لگتی کہیے، کیا آج فن قوالی میں ایسا سحر زدہ ماحول کہیں نظر آتا ہے۔ فن موسیقی ہی کیا، کلاسیکل فوک گلوکاری بھی طفیل نیازی‘ عالم لوہار‘ شوکت علی اس جہانِ فانی سے رخصت ہوتے ہوئے اپنے ساتھ ہی لے گئے ہیں۔ ملکہ ٔ پکھراج کا ورثہ میری کلاس فیلو انکی بیٹی طاہرہ سید نے ضرور سنبھالا جس نے اپنی والدہ کے ساتھ ڈویٹ گیت پہاڑی لب و لہجہ میں گا کر بامِ عروج تک رسائی حاصل کی۔ اب وہ اپنی زندگی میں ہی خواب و خیال ہو چکی ہیں۔ مہدی حسن کو بھی کلاسیکی گلوکاری پر ملکہ حاصل تھا جن کے گلے میں برصغیر کی مقبول گلوکارہ لتامنگیشکر کے بقول بھگوان بولتا تھا۔ اسی طرح آٹھ دس دہائیاں قبل زاہدہ پروین‘ پٹھانے خاں ، استاد محمد جمن کی جنوبی پنجاب سے اٹھنے والی آوازیں کلاسیکل فوک گلوکاری میں انکی دھاک بٹھاتی رہیں‘ زاہدہ پروین کا ورثہ انکی بیٹی شاہدہ پروین نے سنبھالا اور بخوبی نبھایا جبکہ عالم لوہار کے صاحبزادے عارف لوہار نے تو گیت کے ساتھ دھمال ڈالنے کا طرز موسیقی اختیار کرکے فوک گلوکاری کو دو آتشہ کردیا ہے۔ انکے نوعمر صاحبزادے ابھی سے ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کی مثال سچ کرکے دکھا رہے ہیں۔ سات آٹھ دہائیاں قبل والی ثریا ملتانیکر اور نغمۂ صحرا ریشماں نے بھی کلاسیکل فوک سنگنگ کو نئی جہتیں دیں۔ تقسیم ہند سے قبل ایک نوعمر گلوکارماسٹر مدن کے ڈنکے بجتے تھے جسے اردو‘ پنجابی دونوں زبانوں میں سریلی تانیں اٹھانے کا ملکہ حاصل تھا مگر وہ صرف 14 سال کی عمر میں اگلے جہان پدھار گئے۔
برصغیر پاک و ہند کے ان یکتائے روزگار کلاسیکل فوک گلوکاروں اور گلوکارائوں کو بے شک خداوند کریم نے سریلی اور مسحور کن آواز سے نوازا تھا مگر انہیں تانیں اٹھانے کیلئے شاعر بھی کمال کے میسر آئے۔ استاد بڑے غلام علی نے تان سین کی معراج تک پہنچنے کا ملکہ امیرخسرو کا نادر کلام گا کر ہی حاصل کیا جبکہ برصغیر کے صوفی شعراء بابا فرید‘ میاں محمد‘ بلھے شاہ‘ شاہ حسین (مادھولال حسین)، پیر وارث شاہ‘ سلطان باہو کے دلوں میں گھر کرنیوالے کلام نے کلاسیکل فوک گلوکاروں کی آواز میں سوز و کیف کی آمیزش کرکے انہیں عوامی گلوکار کے درجہ پر فائز کیا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے آج الجھی ہوئی پراگندہ قومی سیاست سے ہٹ کر کس موضوع کو چھیڑ دیا ہے۔ تو جناب!
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی پہ معاف
آج پھر درد میرے دل میں سِوا ہوتا ہے
پراگندہ سیاسی ماحول کی زہرناکی نے تو ہم سے لطیف جذبات بھی چھین لئے ہیں اور روزمرہ کے مسائل میں الجھا کر ہمارے حکمران اشرافیہ طبقات نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ آج تو ہمیں غالب کی زبان میں یہ جائزہ لینے کی فرصت بھی نہیں مل رہی کہ:
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
مگر اس ’’دھویں‘‘ نے شرف انسانیت والی ہماری تمام قدریں ہی الٹ دی ہیں‘ ہمارے لطیف جذبات اور حسِ مزاح کو بھی راندۂ درگاہ بنا دیا ہے جس کے کرب نے خود مجھے زچ کیا تو میرے قلم سے بے ساختہ اس شعر کی آمد ہوگئی کہ:
عزت‘ عقل شرافت دا ہن پَین لگا جے کال
بھکھے ننگے اَج پھر دے نیں ہر پا سے انسان
تو بھائی صاحب! عزت‘ عقل اور شرافت کے اس ’’کال‘‘ میں ہمارے لئے کلاسیکل فوک موسیقی اور گلوکاری کا بھی کال پڑ چکا ہے۔ استاد عنایت عابد جیسے کلاسیکل فوک گلوکار کی کہیں شنوائی ہی نہیں ہوتی جنہیں ’’کوہنی مار‘‘ گروپ ہر سال قومی اعزازات کی تقریب سے پیچھے دھکیل دیتا ہے اور وہ مایوسی بھرے چہرے کے ساتھ کبھی مجھے دیکھتے ہیں اور کبھی ’’پلاک‘‘ کی ڈائریکٹر جنرل صغریٰ صدف صاحبہ کو۔ سو آج ہماری نسل کے لوگوں کیلئے دل بہلانے کے سارے اسباب ہی عنقا ہو چکے ہیں۔ ہڑبونگ کلچر نئی نسل کو بھاتا ہے جس میں وہ اپنے لب و لہجے کو بگاڑ رہے ہیں تو صوفی ازم پر مبنی شاعری اور اس پر اٹھائی جانیوالی کلاسیکل فوک تانوں کا بھی انہیں کیا احساس و ادراک ہو سکتا ہے۔ پھر بھی میں آج کی نسل میں پاکپتن کے وحدت رمیز اور ملتان کی میمونہ ساجد کی مدھر آواز میں اٹھنے والی کلاسیکل فوک تانوں کو سنتا ہوں تو دلِ مایوس و ویران میں امید کی کرن پھوٹتی نظر آتی ہے۔ جناب! آپ ان کیلئے محافل سجائیے تو آپ کو انکے گلے میں استاد بڑے غلام علی خاں اور زاہدہ پروین کی مدھر آوازوں کا ہی تڑکا لگتا نظر آئیگا۔
پچھلے دنوں ہمارے دوست شاعر اور کالم نگار ابرار ندیم صاحب نے میلسی کے ایک نوعمر گلوکار رمضان جانی سے روشناس کراکے ہمارے لئے خوشگوار حیرت کے دروازے کھول دیئے۔ رمضان جانی میلسی کا مکین ہے اور ابھی بارہویں جماعت کا طالب علم ہے۔ میں نے ابرار ندیم کی بامعنی نظم ’’دل روندا اے‘‘ کرلاندا اے‘‘ رمضان جانی کی پرسوز آواز میں سنی تو اسکے ادائیگی کے انداز نے فی الواقع میری آنکھیں تر کردیں ۔ کلاسیکل فوک انداز میں وہ ابرار ندیم کی شاعری کے مفہوم و معانی کو اجاگر کرتے ہوئے تانیں اٹھا رہا تھا تو ابرار ندیم کی بے ساختہ شاعری سمیت رمضان جانی کی آواز میرے دل میں گھر کرتی نظر آرہی تھی۔ میرے آج کے اس کالم کا محرک بھی رمضان جانی ہی بنا ہے جس کی غم و کیف میں ڈوبی آواز آج سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہے اور ٹک ٹاکرز نے اسکی پیروڈی کرکے ابرار ندیم کو بھی مقبول عوامی شاعر کے بلند درجے پر فائز کر دیا ہے۔ بے شک رمضان جانی کی مدھر تانوں پر ’’دل روندا اے‘ کُرلاندا اے‘‘۔