عاشق من الفلسطین

زمین کاوہ مقدس ٹکڑا جہاں سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلند ہوئے اوربلند سے بلندترین ہوتے ہوئے سدرۃالمنتہیٰ کے مقام تک جاپہنچے،وہیں سے ہم اپنی شامل ِاعمال کے باعث ایسے گرے ایسے گرے کہ تحت الثریٰ میں کہیں جاکرپناہ ملی۔کیا کریں کہ آج کی ہوش ربا صورت حال میں عربوں کے لیے ’’صحرا میں اے خدا کوئی دیواربھی نہیں‘‘ والا معاملہ ہے۔
کچھ سال اُدھرکی بات ہے، میںنے ’’اردو ادب اورتحریک آزادی فلسطین‘‘کے عنوان سے کتاب لکھی تھی اور اس کی اشاعت کے لیے کسی مناسب پبلشر کی تلاش میں تھا،لائبریری میںکتابوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایک دن میری نظرامجداسلام امجد کے تراجم کے ایک مجموعے پرجاکرٹھہرگئی ،اس مختصر سی کتاب میں صہیونیوںکے ہاتھوں انسانی حقوق کی مسلسل پامالی اور عرب حکمرانوں کی بے حسی کوموضوع بنانے والی عرب شاعری کے منظوم اردو تراجم شامل تھے ۔کتاب میںبڑے اہتمام کے ساتھ اسلام آباد میں موجود فلسطین کے ثقافتی مرکز کے ناظم کی طرف سے خیرسگالی کا پیغام بھی شامل کیاگیاتھا۔ یہ بات میرے دل کوبھاگئی ،خیال آیا کہ میں اپنی کتاب کے لیے بھی کسی اہم شخصیت سے کوئی ایسی رائے لے لوں،اسی وقت اپنے ایک شاگرد کے ذریعے( جو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل سکالر تھا) فلسطینی سفارت خانے سے رابطہ کیا۔فون پر دوسری طرف سفارت خانے کے کلچرل اتاشی تھے،ان کا نام میں یہاں شعوری طورپردرج نہیں کررہا۔ میں نے جب اپنی خواہش انکے سامنے بیان کی تو ’’سیدی سیدی،اخی اخی‘‘ کہتے ہوئے میری کاوش کوسراہنے لگے،ان کی خواہش کی تعمیل میںڈاک کے ذریعے کتاب کا مسودہ انھیںبھجوا دیا۔ کچھ دنوں بعد رابطہ کیا تو ناپسندی اورنامنظوری کا سردجہنم کی مانندایک گلیشیر گفتگو کے راستے میں حائل نظرآیا،وہ ہم سے بات کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھے ۔اس سرد مہری کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اسلام آباد کا سفارت خانہ پی ایل اوکے زیرانصرام ہے جبکہ ہم نے اپنی کتاب میں حماس کی تعریف ذرا زیادہ کردی تھی،اس لیے اب ان سے کسی بھی قسم کی توقع نہ رکھی جائے،یہ بات خاصی پرانی ہے لیکن جب بھی فلسطین میںصہیونیوں کا رقص ابلیس ہوتا ہے اور تھیوڈرہرزل کے خوابوں کی تعبیرکو مزیدتوسیع دینے کے رسیا عام فلسطینی شہری پرعرصہ حیات تنگ کرتے ہیں ، مجھے اس سفارت کار اور سفارت خانے کی شانِ بے نیازی یاد آجاتی ہے۔عام فلسطینی کیلئے صحیح معنوں میں آواز اٹھانے والا اب کوئی نہیں،1967ء میںمسجداقصٰی کی آتش زدگی کے بعد طلوع ہونے والا عرب قومیت کا سورج ڈوب چکا ہے،ہم اس کے شفق رنگ لہو کامشاہدہ کر سکتے ہیں۔لاہور میں منعقد ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس پر مہدی ظہیرکی آوازمیں گائے جانے والے جمیل الدین عالی کے نغمے ’’ہم تابہ ابد سعی وتغیرکے ولی ہیں‘‘کی لَے بھی اب بکھر چکی ہے،اس کے استعمال ہونے والے ساز بھی اب سوز سے محروم ہوگئے ہیں۔ انکے سارے کھرج، رکھب، گندھارعملی طور پر معدوم ہیں۔ اب تک عالمی منظرنامے میںتبدیلیوں کے ایسے طوفان آئے ہیں جنھوں نے نظریات و تصورات کی دنیا کا ’’ تورا بورا‘‘ کردیا ہے۔متحدہ ہندستان میںبیسویں صدی کے آغاز کے پارسی تھیٹرمیں آغا حشر کا ڈراما ’’یہودی کی بیٹی‘‘ پرفارم کیا گیا،اس ڈرامے میں ہولوکاسٹ کے نتیجے میں قتل کیے جانے والے خاندان کی واحدزندہ بچ جانے والی بیٹی کی زندگی موضوع بنائی گئی تھی،لوگ اس ڈرامے کو دیکھتے اور نم دیدہ پنڈال سے باہر نکلتے۔اب ایسا نہیں ہوسکتا،اسرائیلی ظلم وستم کے ردعمل میں دنیا کے مختلف ملکوں میں نفرت بھی پیدا ہوئی۔
ہم پاکستانی(بلکہ برصغیرکے) مسلمانوں کے اجتماعی لاشعو ر میںعالم اسلام کے مسائل سے ہمدردی فطری طورپرموجود ہے،گذشتہ صدی کے ابتدائی نصف میں خلافت کے خاتمے،جنگ بلقان ،طرابلس الغرب پر اطالیہ کے حملے اور حضرت امام رضا کے مزار پر روس کے توپ خانے کا حملہ اور اس کے نتیجے میں تحریک خلافت اور انجمن حمایت اسلام کے جلسوں وغیرہ نے ’’انما المومنون اخوۃ‘‘ کے تصور کو ابھارا،بین الاقوامی سازشوں نے اسرائیل کو جنم دیا تو عوام الناس کے ذہنوں میں امت مرحومہ کی بے بسی اور بھی راسخ ہوگئی،فلسطین اور اہل فلسطین کے غم واندوہ کی منظرکشی اور اصلاح احوال کے لیے اردو شعرا نے اسی پس منظر میں ایک شان دار شعری روایت کی بنیاد رکھی۔اردو شعرا نے دنیا کے مختلف گوشوں میں ’’راندہ ٔ درگاہ‘‘بنائے جانے والے مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا ہے۔جن اردو شعرا نے فلسطین اور اس کے رستے ہوئے زخموں کو مذہبی یا خالص انسانی ہمدردی کے تحت اپنی شاعری کا عنوان بنایا ہے ان میں علامہ محمد اقبال،فیض احمدفیض، نعیم صدیقی،احمدندیم قاسمی،رئیس امروہوی، ن م راشد، ابن انشا،حبیب جالب،احمدفراز،ظہیر کاشمیری،صہبا اختر،ضمیر جعفری، یوسف ظفر، خاطر غزنوی، اداجعفری، شہزاداحمد،اسلم فرخی، عشرت ظفر، صلاح الدین پرویز، خالد سہیل، سلطان رشک، محمد فیروزشاہ، ایزد عزیز، اعتبارساجد،ذی شان ساحل، کشور ناہید، خالدعلیم ، عامر سہیل،تقی عابدی، مختارالدین احمد، خالد علیم، فاروق حسن، فراست رضوی ، سلیم شہزاد اور دیگر بہت سے شعرا کے نام شامل ہیں۔
شعرا کی اس فہرست میں اقبال اور فیض نمایاں ہیں، اقبال کے دورمیں اسرائیل ابھی تک قائم تونہیں ہوا تھا لیکن حالات سنگین ہوتے جارہے تھے۔اقبال کی ان واقعات پر گہری نظرتھی ۔وہ فلسطینی عوام کی حمایت کے لیے جیل میں جانے کے لیے بھی تیارتھے۔انھوں نے اس ظلم پر نہ صرف برطانیہ اور مجلس اقوام عالم کو ذمہ دار ٹھہرایا بلکہ عرب حکمرانوں کی پالیسیوں پر کھلی تنقید کی۔ انھوں نے شور وغوغا کی بجائے منطقیت اور استدلالیت کا راستہ منتخب کیا، علامہ اقبال دوسری گول میز کانفرنس سے واپسی کے سفر میں مصرسے بہ ذریعہ ریل فلسطین روانہ ہوئے اور وہاں 9 روز کا قیام بھی کیا۔ اس سفر میں مولانا غلام رسول مہر، مولانا شوکت علی اور حافظ عبدالرحمن بھی انکے ہم رکاب تھے۔ اس دَورے کا مقصد مفتی اعظم فلسطین، سید امین الحسینی کی دعوت پر مؤتمر عالم اسلامی کی کانفرنس میں شریک ہونا تھا۔فیض احمدفیض تو تحریک آزادی فلسطین کے لیڈر یاسر عرفات کے دوست تھے اور ایفروایشیائی ادیبوں کے رسالے ’’لوٹس‘‘کے انگریزی سیکشن کی ادارت کے دنوں میں ان کے فلسطینی شاعروں محمود درویش،سمیح القاسم اور معین بسیسو وغیرہ سے دوستانہ تعلقات بھی رہے۔دیکھیے فلسطین اوراہل فلسطین کی کامل آزادی کا سورج کب طلوع ہوتاہے۔فی الوقت راوی اپنوں کی شقاوت اوردنایت کاتذکرہ کررہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کینیڈا میں مقیم پاکستانی نژاد خالد سہیل کی کتاب شائع ہوئی تھی جس میں دلائل وبراہین کے ساتھ آل ِاسحاق اور آل اسماعیل کوآپس میں رشتے دار قرار دیاگیاتھا۔خدا نہ کرے کہ حالات کا جبراس بات کوسچ ثابت کرے،ظالم اور مظلوم بھی کبھی آپس میں چچا زاد ہوئے۔عالمی قوتوں کی مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر گہری نظر ہے۔حالات پربظاہران کی مکمل گرفت بھی دکھائی دیتی ہے۔فلسطین اور اہل فلسطین جس وجودی صورت حال سے دوچار ہیں،اس کا حل ان کی سیاسی بقامیں ہے۔ وہ اپنے علاقے اور پہچان سے محروم کردیے گئے ہیں ،انھیں خطرہ ہے کہ کہیں تحلیل ہی نہ ہوجائیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں اپنے وطن سے محبت کاایک نیا پہلو سامنے آیاہے۔محمود درویش کہتا ہے:
میراوطن نہ توحکایات اورکہانیوں کابنڈل ہے
اورنہ ہی صرف یاد
یہ زمین میری ہڈی کی جلدہے
اوردل ا کی کھاس پرشہدکی مکھی کی طرح گردش کرتارہتاہے۔