پیر ‘ 26؍ صفر‘ 1443ھ‘ 4 اکتوبر 2021ء
سمندری طوفان ’شاہین‘ سے گوادر اور ساحلی علاقے متاثر، کراچی بڑے نقصان سے بچ گیا
’شاہین تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ‘ والی بات سب مانتے ہیں۔ اب ’شاہین‘ ہی کے نام کا ایک سمندری طوفان پاکستان کے ساحلی علاقوں کو چھوتا ہوا مسقط، عمان کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے عوام اور حکومتیں پریشان ہیں۔ انہوں نے حفاظتی طور پر دو یوم کی چھٹی کا اعلان کردیا ہے اور عوام کو ساحلی مقامات سے نقل مکانی کر کے محفوظ مقامات پر جانے کا کہہ دیا ہے۔ اس طوفان کی وجہ سے کراچی میں تیز ہوائوں کے ساتھ بارش ہوئی جس کے باعث کئی درخت اور کھمبے اکھڑ گئے۔ سڑکیں تالاب بن گئیں۔ ٹھٹھہ ، جام شورو، بدین وغیرہ میں بھی یہ غیر معمولی بارش طوفان نوح بن کر سیلابی منظر پیش کرنے لگی۔ گوادر، کیچ، پنجگور، پسنی، اورماڑا، جیوانی میں حالت اس سے بھی زیادہ ابتر ہے جہاں موسلادھار بارش اور طوفانی ہوائوں نے نظامِ حیات معطل کر رکھا ہے، بجلی غائب ہے، ٹوٹی پھوٹی کچی سڑکوں پر پانی اور کیچڑ جمع ہے اور لوگ پریشان حال پھر رہے ہیں۔ اس پر تو میر سے معذرت کرتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے:
پھرتے ہیں لوگ خوار کوئی پوچھتا نہیں
طوفاں میں سارے کام اور منصوبے بہہ گئے
یہی وجہ ہے کہ گوادر میں گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام جو احتجاجی ریلی نکالی گئی اس میں ہزاروں افراد نے شہر کے اکلوتے تجارتی بازار میں جمع ہو کر حکومت کی نام نہاد ترقی کے دعوئوں کا پول کھول کر رکھ دیا لیکن ابھی تک نہ تو بجلی بحال ہوئی ہے نہ سڑکوں اور گلیوں سے کیچڑ اور گندا پانی نکالا جا سکا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں ہنگامی حالات سے نمٹنے کے صرف دعوے ہوئے ہیں، کام نہیں۔ کسی اور سے کیا شکوہ ابھی تو کراچی جیسے میٹروپولیٹن شہر کی حالت ابتر ہے۔ وہاں کے لوگ پریشان ہیں۔ ایسے حالات میں دور دراز علاقوں پر کون توجہ دے گا۔ دنیا بھر میں سمندر کے ساحل پر آباد بندر گاہیں ترقی کا زینہ بنتی ہیں مگر شاید ہم ترقی کے ان زینوں پر چڑھنا نہیں چاہتے۔
٭٭٭٭٭
کراچی میں تاوان کے لیے اغوا کیا گیا تاجر ڈی جی ایکسائز کے دفتر سے بازیاب
یہ بڑے کمال کی بات ہے! کیا ڈی جی ایکسائز کا دفتر مغویوں کو رکھنے کے لیے سیف ہائوس کا کردار ادا کرتا ہے یا اب اہم سرکاری ادارے بھی اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اپنا حصہ ڈالنے لگے ہیں؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ بے چارہ تاجر اس سے قبل بھی اغوا ہو چکا ہے۔ جی ہاں، پہلے ایک ڈی ایس پی نے تاوان وصول کرنے کے لیے اس بے چارے تاجر کو اغوا کیا پھر کتنی وصولی کے بعد بخیر جانے دیا اور شرائط کیا طے ہوئیں یہ وہ تاجر جانے یا پولیس والے۔ اس مرتبہ انہونی یہ ہوئی کہ پولیس والوں کے بعد محکمہ ایکسائز والوں نے نرم چارہ سمجھ کر اسی تاجر کو اغوا کر لیا۔ اس مرتبہ چونکہ معاملہ طشت ازبام ہو گیا تو پتا چلا ہے کہ اس مغوی کے بدلے میں 20 لاکھ روپے طلب کئے گئے۔ ان باتوں سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے سرکاری دفاتر اب بھتہ خوری اور تاوان وصول کرنے کے دھندے میں استعمال ہونے لگے ہیں۔ خدا خیر کرے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو بات کہاں تک جا نکلے گی۔ مشہور ہے کہ ایک بااثر سیاسی شخصیت نے اپنی طاقت کے بل پر ایک اہم مغوی کے پائوں میں بم باندھ کر تاوان کی رقم وصول کی تھی۔ جس معاشرے میں بڑے بڑے لوگ بھی اس قسم کی حرکتوں میں مصروف ہوں اور اسے اپنی بہادری سمجھتے ہوں وہاں جرائم پیشہ لوگوں اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اس پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ جو کرنا ہے وہ حکومت نے کرنا ہے، وہ اگر کچھ کر سکتی ہے تو ضرور کرے ۔
٭٭٭٭
ایوانِ صدر کی مسجد سے خطبۂ جمعہ نشر ہونا ریاست مدینہ کی طرف ایک قدم ہے: فواد چودھری
ایوانِ صدرکی جامع مسجد سے نمازِ جمعہ مع خطبہ پی ٹی وی پر براہِ راست نشر کرنا ایک مستحسن کام ہے۔ اب یہ ہر جمعہ کو براہِ راست پی ٹی وی پر دکھایا جائے گا۔ قبل ازیں، پی ٹی وی سے پنج وقتہ اور نماز جمعہ کی اذانوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ کئی نجی چینلوں پر بھی جاری ہے۔ ان کاموں سے بے شک ناظرین پر اچھا اثر پڑتا ہے مگر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری کا یہ ارشاد گرامی کہ یہ ریاست مدینہ کے قیام کی طرف ایک قدم ہے۔ موصوف نے کچھ زیادہ ہی جذباتی بیان دیدیا ہے۔ ریاست مدینہ میں شہریوں کو سماجی اور معاشی مساوات اور انصاف کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی ۔ حکمران عوام کے مسائل سے باخبر رہتے ہوئے انہیں روزگار اور علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرتے تھے جس کی وجہ سے آج تک ریاست مدینہ ایک نمونہ کہلاتی ہے۔ وہ ایک ایسی ریاست تھی جہاں کوئی ظالم، غاصب، طاقتور ، مالدار یا حکمران من مرضی نہیں کر سکتا تھا ، کسی پر ظلم نہیں ہوتا تھا۔ امیر ہوں یا غریب، سب قانون کے سائے تلے اطمینان سے زندگی بسر کرتے تھے۔ ریاست مدینہ کا سب سے بڑا کام عوام کو آزاد اور خوشحال زندگی فراہم کرنا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ ہمارے معاشرے میں طبقاتی تقسیم اور وسائل پر مخصوص طبقوں کا کنٹرول ہے جو خود تو عیش کرتے ہیں مگر عوام اذیت بھری زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ صورتحال کسی طور ریاست مدینہ کی عکاس نہیں کیونکہ ریاست مدینہ میں بھوک ننگ اور ظلم و ستم نہیں بلکہ امن اور خوشحالی کا راج تھا۔ حکومت ذرا اس اہم کام کی طرف بھی توجہ دے تاکہ ریاست مدینہ کا بنیادی مقصد پورا ہو، عوام خوشحال ہوں اور ہماری ریاست دنیا کے لیے نمونہ بنے۔
٭٭٭٭
پنجاب اور خیبر پی کے میں ڈینگی سر اٹھانے لگا
جی ہاں، موسم بدلتے ہی یہ ڈینگی کا مچھر کونوں کھدروں میں جمع پانی میں پل پوس پر جوان ہو جاتا ہے۔ اسکے بعد اسکے وار شروع ہو جاتے ہیں اور عوام کو یہ تگنی کا ناچ نچاتا ہے، جو چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اسکے بے سرے راگ پر ساری رات کروٹیں بدلتے ہوئے سونے کی ناکام کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اس سے بچنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اردگرد کے ماحول کو صاف اور خشک رکھیں۔ یہ مچھر عام طور پر گھروں میں جمع ہونے والے صاف پانی میں پرورش پاتا ہے۔ اسکے علاوہ رات کو حفاظتی طور پر مچھر مار لوشن لگایا جائے یا گھروں میں میٹ جلائیں۔ ہاتھ اور پائوں اس مچھر کا خاص نشانہ ہیں انہیں ننگانہ رکھیں۔ پارکوں میں سیر کرنے والے خاص طور پر احتیاط کریں۔ پچھلی حکومت کے اچھے کاموں میں سے ایک کام یہ بھی تھا کہ اس نے ڈینگی کی وبا پر تندہی سے قابو پایا۔ اس کیخلاف مؤثر جنگ لڑی اور کامیاب رہی۔ موجودہ حکومت کی طرف سے بھی یہی توقع ہے کہ وہ ڈینگی کے موسم میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے مچھروں کے لشکروں کو نیست و نابود کر کے عوام کو انکی یلغار سے بچائے گی۔ اب ان مرد ود مچھروں کو کیا معلوم کہ عوام کے بدن میں تو اب لہو کی ایک بوند بھی نہیں بچی۔ وہ لہو جو رگوں میں گردش کرتا تھا مہنگائی نچوڑ کر لے گئی ہے۔ اب تو خون کی جگہ افلاس کی تلخی ان نیم زندہ انسانوں کے بدن میں گردش کر رہی ہے۔
٭٭٭٭٭