وزیر اعظم عمران خاں نے قوم سے کئی ایک وعدے کئے ہیں ۔ان میں ایک نمایاں وعدہ جنوبی پنجاب کے صوبے کا قیام ہے۔ اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ یہ علاقہ برسوں سے پس ماندگی کا شکار ہے۔ اس پس ماندگی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دریائے ستلج اور راوی سے جو پانی اسے صدیوں سے ملتا چلاا ٓرہا تھا ،وہ سندھ طاس معاہدے کے بعد سے یکایک بند ہو گیا اور یہ علاقہ اپنی زرعی آمدنی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
وزیر اعظم اپنا وعدہ ایفا بھی کر دیں اور جنوبی پنجاب ایک الگ انتظامی یونٹ بن بھی جائے تب بھی پا نی کی کمی دور کئے بغیر اس کی پس ماندگی کو دور کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔یہاں زرخیز زمینیں تا حد نظر پھیلی ہوئی ہیں لیکن ان میں گھاس تک نہیں اگتی، بس ہر طرف خاک اور ریت اڑتی ہے۔زیادہ تر چھوٹے کاشتکار ہیں جو ٹیوب ویلوں کے اخراجات بھی برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لئے جناب وزیر اعظم کو جنوبی پنجاب کی ترقی اور خوش حالی کے لئے ا ورا سے باقی صوبوں کے مساوی لانے کے لئے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا ۔ا سکے لئے وہ آبی ماہرین سے مشورہ کریں یاکوئی ٹاسک فورس بنائیں ۔ بھارت تو ایک ظلم اور کر رہا ہے کہ اپنے شہروں اور قصبوں کا گندہ پانی ستلج میں پھینک رہا ہے جس سے سنگین ماحولیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ماحولیاتی مسائل کامطلب یہ نہیں کہ زرداری صاحب کی طرح کوئی صاحب ماحولیات کے وزیر بن جائیں اور فیصل آباد کے کارخانہ داروں کو دھواں پھیلانے کے جرم میں دھڑا دھڑ چالان کر کے مال بنانا شروع کر دیں۔ کمائی کے اس طریقے کے جد امجد جناب زرداری ہی تھے جنہوںنے اپنی بیگم صاحبہ سے ماحولیات کی وزارت خاص طور پر مانگی تھی۔
اقبال چیمہ کی دوسری ریسرچ رپورٹ کا تعلق بھارت کی اس آبی دہشت گردی سے ہے جو ا س نے راوی اور ستلج کا مکمل پانی روک کر پاکستان کے بہت بڑے علاقے کو بنجر ریگستان میں تبدیل کر دیا ہے۔ بھارت کو ان دونوں دریائوں کا مکمل پانی روکنے کاا ختیار نہیں تھا۔ سندھ طاس معاہدہ بھی بھارت کو یہ اختیار نہیں دیتا، اس لئے یہ بھارت کی جارحیت شمار ہو گی جس کا ہم نے کوئی توڑ نہیں کیا۔ نہ بھارت سے کوئی احتجاج کیا ۔ کوئی بیان تک دینا ضروری نہ سمجھا نہ اسے ورلڈبنک میں گھسیٹ کر لے گئے۔ دنیا میں درجنوں دریا درجنوں ممالک سے گزرتے ہیں اور یہ تمام ملک ان تمام دریائوں کا پانی ایک معاہدے کی رو سے شیئر کرتے ہیں،ایساکہیں نہیں ہوا کہ بالائی ممالک نے کسی دریا کے سارے پانی کو اپنے لئے روک لیا ہو اور زیریں علاقے کے ممالک کو پیاسا ماردیا ہو۔ دریائے مسس پی،دریائے ایمازون،دریائے ڈینیوب ، دریائے نیل، دریائے گنگا اور دریا ئے جمنا اس کی کھلی مثالیں ہیں، ان تما م دریائوں کا پانی ایک طے شدہ فارمولے کے تحت وہ تما م ممالک شیئر کرتے ہیں جہاں جہاں سے ان کا گزر ہوتا ہے،اقبال چیمہ لکھتے ہیں کہ بھارت واحد مثال ہے جس نے دو دریائوں پر مکمل تصرف جما رکھا ہے۔
یہ دریا بھارت کے کنٹرول میں گئے کیسے، یہ ایک المناک کہانی ہے۔ اور یہ میرا اپنا تجزیہ ہے۔میں یہ رونا اکثر روتا ہوں۔
قائد اعظم نے مشرقی پاکستان کے دورے میںبریگیڈیئر ایوب خان کو توجہ دلائی کہ سرحد پر بے اندازہ سمگلنگ ہو رہی ہے، اسے بند کیا جائے۔ بریگیڈیئر ایوب خاں نے اسے ذاتی تذلیل سمجھاا وراس کا بدلہ قائد اعظم کے پاکستان سے گن گن کر لیا۔ پہلے تو وہ آرمی چیف کی حیثیت سے وزیر دفاع بن بیٹھا اور پھر سول نظام اور جمہوریت کا بسترگول کر کے وہ چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر بن گیااور خود کو فیلڈ مارشل کے فیتے بھی لگا لئے۔اس قدر اندھی طاقت کے بل بوتے پر اس نے بھارت کے ساتھ اس کی من مانی شرائط پر سندھ طاس کا سمجھوتہ کیا جس میں راوی اور ستلج بھارت کو دان کر دیئے گئے۔باقی رہ گئے چناب اور جہلم ۔ ان پر بھارتی قبضہ کروانے کے میںریڈ کلف باونڈری ایوارڈ کا ستم شامل ہے ۔ اس ستم کو ایوب خاں روک سکتے تھے کہ وہ بائونڈری فورس کے کمانڈر تھے جس نے تقسیم کی نگرانی کرنا تھی۔، یہ کیسے ہو گیا کہ ایوب خان کا دفتر امرتسر میں ہو اور وہ ریڈ کلف ایوارڈ کی بھنک بھی نہ پا سکا ہو جس کے تحت فیرو زپور اور گورداسپور کے دو اضلاع بھارت کے نقشے میں شامل کروا دیئے گئے جس کی وجہ سے بھارت نے کشمیر پر قبضہ جما لیا اور جہلم اور چناب کے پانی کو بھی کنٹرول کرنے کے لئے درجنوں ڈیم تعمیر کر لئے۔
سندھ طاس معاہدے کی رو سے راوی اور ستلج پر بھارتی استحقاق قبول کیا گیا مگر دنیا میں ایساکوئی ا ستحقاق اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ بالائی علاقے کا ملک کسی دریا کے پانی کو سو فیصد روک لے ، مگر بھارت نے آبی دہشت گردی کی حد کر دی ا ور ایوب خان نے انیس سو اڑسٹھ تک کے مارشل لا دور میں بھارت کے خلاف خاموشی ا ختیار کر کے اس کی آبی دہشت گردی کو سندجواز عطا کر دی ، اس طرح دریائے ستلج فیروز پور ہیڈورکس سے پنجند تک ساڑھے چار سو میل اور دریائے راوی جسڑ سے لے کر سدھنائی تک کوئی ڈیڑھ دو سو میل ستر برس سے خشک پڑا ہے اور ان دریائوں کے پانی پر انحصار کرنے والے پاکستانی کاشتکار اپنی زمینوں کو بنجر ہوتا دیکھ رہے ہیں، یہی وہ زرخیز ترین علاقہ تھا جو پورے ہندوستان کی غذائی ضروریات کا کفیل تھا مگر ستر برس سے اس علاقے کے کروڑوں افراد فاقوں کا شکار ہیں اور ان کی زراعت پر انحصار کر نے والا پاکستان بھی دال سبزی ، چنے، چینی تک کے لئے در آمد پر مجبور ہے اور مہنگے دام ادا کر رہا ہے مگر بھوک ہے کہ مٹتی نہیں، وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ایک بھوک کا مسئلہ نہیں، پانی کی کمی سے انسان غلاظت زدہ آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے جس کی وجہ سے ٹی بی، ہیپا ٹائٹس کے موذی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔جانوراور دیگر آبی حیات کی ضروریات کے لئے بھی پانی دستیاب نہیں ، بھارت کا فرض بنتا تھا کہ وہ انسانوں، جانوروں اور آبی حیات کے لئے ستلج اور راوی میں مسلسل پانی چھوڑتا اور اپنے لئے صرف اپنی ضرورت کا پانی رکھتا مگر اس نے سو فیصد پانی پر قبضہ جما لیا۔ یہ ہے سندھ طاس معاہدے کا کڑوا ثمر جو پاکستانی قوم کی جھولی میں آیا اور فیلڈ مارشل ایوب خان ا ور ان کے بعد کی حکومتوںنے بھارت سے اپنی ضرورت کے پانی کا کبھی تقاضا نہیں کیا۔
کیاقائد اعظم کا پاکستان بریگیڈیئر ایوب خان کو ملنے والی ایک روٹین کی سرزنش کا اس قدر گھنائونا مزہ چکھنے کا سزاوار تھا۔
اگر حکومت جنوبی پنجاب کی محرومی اور پس ماندگی کا خاتمہ چاہتی ہے اور وزیر اعظم عمران خان کا یہ عزم ہے توا نہیں آبی ماہرین سے فی الفور مشاورت کرنی چاہئے۔ بھاشا اور مہمند ڈیم پر کھربوں کے اخراجات ہیں مگر راوی اور ستلج کو زندہ کرنے کے لئے صرف چند ارب کی رقم درکار ہے۔ راوی کو بسنتر اور ڈیک نالے کے پانی سے زندہ کیا جا سکتا ہے اور ستلج میں ایک نہر ڈالی جا سکتی ہے جو ہیڈ گنڈا سنگھ والہ سے پنجند کے علاقے تک انسانوں، جانوروں اورا ٓبی حیات کی ضرورت کا پانی فراہم کر سکتی ہے۔ نالہ ڈیک اور بسنتر کے پانی کو کنٹرول کرنے سے ا س علاقے میں مون سون کی تباہی کو بھی روکا جاسکتا ہے۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، منصوبے موجود ہیں ، مگر بعض لوگ اس مقصد کے لئے جنوبی پنجاب کے لوگوں کو بیوقوف بنا کر چندے بٹو ر رہے ہیں ، وہ بھی ان جیب کتروں سے ہوشیار رہیں۔ شمس الملک، اقبال چیمہ اور میاں برکت علی لونا کو بہر حال اپنے مشورے کی فیس نہیں چاہئے ۔ ان کا مفت مشورہ حاضر ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024