
19 ستمبر کو افضل احسن رندھاوا بھی عارضی سفر کی تکمیل کر گئے۔ ان سے اتنی یادیں وابستہ ہیں، سوچتا ہوں کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں۔ ویسے بھی اس مختصر کالم میں سب یادوں کو کیسے سمیٹا جا سکتا ہے؟
ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں 1972ءمیں افضل احسن رندھاوا قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ راجا رسالو اور راقم الحروف انہیں مبارک باد دینے فیصل آباد گئے۔ میں نے رسالہ ”سانجھاں“ کا اجرا کیا تو رندھاوا صاحب سے درخواست کی کہ وہ رسالے کے لیے پیغام لکھ کر بھیجیں۔ ان دنوں وہ اسلام آباد میں مقیم تھے۔ انہو ں نے قومی اسمبلی کے لیٹر پیڈ پر پنجابی میں پیغام لکھ کر بھیجا۔ یہ پیغام جولائی 1976ءکے پرچے میںشائع ہوا۔
افضل احسن رندھاوا نے لکھا۔ :
”دنیا وچ تے دو شیواں سدا زندہ رہن گئیاں۔ اللہ پاک تے سورمے دا ناں۔ اوس توں وڈا سورما کیہڑا اے جیہڑا ماں بولی دا ناں لوے تے اوہدی خدمت کرے، بھاویں اوکھ ہووے۔ ماں بولی نال تیرا پیار چار ورھے پنجابی ادبی سنگت دی خدمت اج وی ظاہر سی تے ”سانجھاں“ لئی محنت مشقت کرن توں وی۔ اللہ پاک تینوں خوش رکھے تے ایس خدمت کرن دی ہور توفیق دیوے۔ جتھوں تیک میرا تعلق اے، مینوں ہر پنجابی بولن تے لکھن والے نال عقیدت تے عشق اے۔ فیر ”سانجھاں“ تے چنگا بھلا رسالہ اے۔ ایہنوں کڈھدا رہو۔ اللہ پاک تیرے نال ہووے“
رندھاوا صاحب نے اپنے لیٹر میں عقیدت اور عشق کی بات کی۔ پنجابی زبان و ادب کے علاوہ انہوں نے اپنی فیملی سے عشق کیا۔ انہوں نے اپنے گاو¿ں کے ایک بدمعاش نائی، وادی© بولان کی بلوچی گھوڑی، گوجرانوالا کے شاہی مرغ چنے اور مشرقی پنجاب کے سکھوں سے عشق کیا۔ سلیم خان گمی کہا کرتے تھے۔ پاکستان میں سکھوں سے پیار کرنے والے پانچ افراد ہیں۔ گیانی عباد اللہ، عبدالغفور قریشی، احمد سلیم، سلیم خاں گمی اور افضل احسن رندھاوا۔
سکھ رائٹرز کہا کرتے۔ ”اسیں صرف اکو بندے نوں جاننے آں تے اوہدے نال پیار کرنے آں تے اوہ اے افضل احسن رندھاوا“ پنجابی کے بعض ادیبوں اور شاعروں پر الزام لگایا جاتا کہ وہ گریٹر پنجاب کے حامی ہیں۔ رندھاوا صاحب کا اس سلسلے میں موقف تھا کہ گریٹر موومنٹ کہاں سے آ گئی؟ میں تقسیم کے حق میں ہوں۔ اگر ہم بھارت کے ساتھ اکٹھے رہتے تو ہمارے ساتھ بھی وہی سلوک ہونا تھا جو اس وقت سکھوں یا دوسری اقلیتوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ البتہ پاکستان کے حصے میں پورا پنجاب نہ آنا ایک المیہ ہے۔ میرا موقف وہی ہے جو قائداعظم کا تھا کہ ہندوستانی سامراج سے آزادی ہی میں ہماری سلامتی تھی۔ ورنہ انہوں نے ہم سے اقلیتوں والا سلوک کرنا تھا۔
قائداعظم کا جو خیال تھا کہ پنجاب تقسیم نہ ہو، وہ درست تھا مگر سامراجی طاقتوں کو یہ بات پسند نہیں تھی۔ تقسیم کا سارا نقصان پنجاب اور بنگال کو ہوا۔ میں مشرقی پنجاب کو بھی اپنے پنجاب کے ساتھ شامل کرنا چاہتا ہوں۔ یہ میری ذاتی سوچ ہے۔ اجیت کور نے مجھے ایک خط میں لکھا کہ خوابوں کی دنیا سے نکل آنا چاہیے۔ میرا جواب تھا۔ میں اپنے موقف سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔ ہم تین ہزار برس تک براہمن سامراج کے غلام رہے۔ اس نے ہمیں شودر بنائے رکھا۔ جاٹ اور کسانوں کو وہ شودر کہتے تھے۔
افضل احسن رندھاوا کی دس نمبر کی مونچھیں بہت مشہور تھیں۔ طویل قامت، جب وہ پنجابی لباس اور کھُسہ پہن کر نکلتا تو لوگ اسے دیکھتے رہ جاتے۔ ایک امریکی لڑکی نے رندھاوا صاحب کو دیکھ کر کہا۔ برطانیہ کے نارمن حملہ آوروں کا جرنیل پنجابی لباس میں کدھر گھوم رہا ہے۔ افضل احسن رندھاوا پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے۔ میں نے ان سے دریافت کیا پیپلز پارٹی کی تین مرتبہ حکومتیں رہیں۔
1972ءسے 1977ءکے دوران میں آپ قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ آپ نے پنجابی کیوں لاگو نہیں کی؟ ان کا جواب تھا 1972-77ءکے دور میں حکومت نے پنجابی کے لیے کچھ نہ کچھ کام ضرور کیا تھا۔ کم از کم اس دور میں ایم اے (پنجابی) کی کلاسیں شروع ہو گئی تھیں۔ ہمارا مطالبہ تو یہ تھا کہ پنجابی پرائمری سے ذریعہ تعلیم کی جائے مگر حکومت نے اوپر سے شروع کر دی۔ اس دور میں دوسرا کام یہ ہوا کہ 1973ءکے آئین میں پنجابی زبان کی ترقی و ترویج کی ضمانت دی گئی۔ اس آئین کے تیار کرنے والوں میں، میں بھی شامل تھا۔ پاکستان کے اس پہلے جمہوری، وفاقی، پارلیمانی اور متفقہ آئین پر میرے بھی دستخط ہیں۔ مجھے بے نظیر بھٹو کا وہ جملہ یاد ہے جو انہوں نے 1989ءمیں منعقدہ بابا فرید انٹرنیشنل کانفرنس میں کہا تھا کہ ”میں حیران ہوں، پنجابی کیوں پنجابی نہیں پڑھتے“ اس کانفرنس میں جو مطالبات وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو پیش کیے گئے، ان میں پنجابی کو پرائمری کی سطح پر لاگو کرنے کا مطالبہ شامل نہیں تھا۔
افضل احسن رندھاوا ادیب، شاعر، مترجم، قانون دان اور سیاست دان تھے۔ سیاست سے وہ تقریباََ کنارہ کشی اختیار کر چکے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب میں آزادی کی زندگی گزار رہا ہوں۔ سیاسی شخص کے لیے کسی سیاسی جماعت کا کارکن ہونا باعث عزت ہے مگر سیاسی جماعت کے ساتھ چلنا (جس کے منشور یا بعض باتوں سے اختلاف ہو) دل گردے کا کام ہے۔ ہماری سیاست کا اللہ ہی حافظ ہے۔
اپنی سیاسی زندگی میں پنجابی ادب کو وقت نہیں دےٓ سکا۔ اب زیادہ وقت پنجابی ادب کو دیتا ہوں اور اپنی مرضی کی زندگی بسر کرتا ہوں۔ زبان اور کلچر کے لیے کام کرنا میرے فرائض میں شامل ہے۔ بطور پنجابی میری ڈیوٹی ہے۔ جس طرح میں نے ماں کا حق ادا کرنا ہو۔ کسی پنجابی کو پنجاب کی بہتری اور اس کے لیے کام کرنے کے لیے سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت نہیں۔یہ کام بھی سیاسی ہے۔ مگر میں اسے یہ نام نہیں دوں گا۔ 73ءکے آئین میں یہ بات موجود ہے کہ سب زبانوں کو ترقی کے مواقع دئیے جائیں گے۔ مگر اردو کی آڑ میں پنجابی کو دبا دیا جاتا ہے۔ آلہ کار بھی پنجابی بنتے ہیں۔ رندھاوا صاحب نے مجھ سے یہ باتیں 1994ءمیں کی تھیں۔ افضل احسن رندھاوا کے اس شعر پر بات ختم کرتا ہوں۔
جان وی دتی اے اجے وی آکھو
چھڈ کے ٹر جا شہر