سماجی سیاست کے اُمیدواروں کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ انہیں چاہیے کہ آگے بڑھیں، عوام کی شرکت سے فری یا سستے سکول اور ڈسپنسریاں قائم کریں، گلی، محلوں اور گاﺅں کی صفائی کا انتظام کریں، ماحول کو صاف بنائیں، مکھیاں مچھر اور گندگی کے ڈھیر ختم کرنے کے لیے مہم چلائیں۔ ان معاملات کی ذمہ داری متعلقہ حلقے کے رہنے والوں کی ہوگی۔ عملی دلچسپی سے ان میں اپنی تقدیر خود سنوارنے کا اعتماد اور جذبہ اُجاگر ہوگا۔ یہی بات اس تحریر کا اہم نکتہ ہے۔
اس مہم میں دانشور اور میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔ یہ کام مثبت ہیں۔ عوام کی شرکت سے ایسے کام معاشرے میں مثبت رویہ اُبھاریں گے۔ لوٹ کھسوٹ کا کلچر کمزور ہو گا۔ مثبت رویہ امن کو فروغ دے گا اور انسان دوستی کے جذبے کو اُبھارے گا۔ امن اور مثبت سماجی رویہ مل کر سماجی اور معاشی ترقی کا باعث ہوں گے۔
تبدیلی کے ایجنٹ
مختصراً سماجی تبدیلی کے مجوزہ پروگرام کو بروئے کار لانے کے چھ عوامل ہیں۔ پہلا سماجی سیاستدان، دوسرا شعور پھیلانے والی تعلیم، تیسرا سماجی آجر، چوتھا سماجی خدمت (ہسپتال، شفاف ماحول وغیرہ)، پانچواں تبدیلی کی سوچ پھیلانے والے دانشور اور میڈیا اور چھٹا فلاحی ریاست۔ اس پروگرام کو بروئے کار لانے کے لیے پہلے پانچ عوامل کو ایک ڈیڑھ دہائی صبرآزما جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمے گی۔ جتنا ربط پہلے پانچ عوامل میں بڑھے گا سماجی تبدیلی کی سیاست کا اثر اتنا بڑھے گا۔ اس کے نتیجے میں چھٹا عامل (فلاحی ریاست) وجود میں آ جائے گا۔
فلاحی ریاست، سماجی قیادت اور مذکورہ دوسرے عوامل مل کر پورے معاشرے کو انسانی فلاح کے رویہ سے چلائیں گے۔ یہاں تجویز کردہ معیشت بحران سے دوچار نہ ہوگی جس طرح رائج معیشت سرمایہ پرست رویوں کی وجہ سے ہے۔
ضمیمہ: غربت کے اسباب
یہ مختصر تحریر غربت کے اسباب کی لمبی بحث کی متحمل نہیں۔ تاہم اس سے صرفِ نظر بھی ممکن نہیں۔
غربت کی ابتدائی وجہ آبادی میں تیز اضافہ ہے۔ معیشت موجودہ شکل میں بڑھتی افرادی قوت کو روزگار مہیا نہیں کر سکی۔
پہلی توجہ خوراک پیدا کرنے والے شعبے کاشتکاری کی طرف جاتی ہے۔ ملکیت کے چھوٹے یونٹ قانونِ وراثت کے تحت بہت چھوٹے ہو گئے ہیں وہ مالکوں کی کفالت نہیں کرتے۔
بہت چھوٹے کاشتکاروں اور روزگار سے محروم دوسرے افراد کے لیے روزگار کے متبادل مواقع میسر نہیں۔ صنعتی سرمایہ کاری ضرورت سے کہیں کم ہے۔ یوں بھی جدید ٹیکنالوجی پر منحصر بڑی صنعتوں کی افرادی قوت کی طلب محدود ہے۔ متوسط اور چھوٹے کارخانے حسبِ توقع فروغ نہیں پائے۔ سروسز سیکٹر کی ترقی زرعی اور صنعتی اشیا کی مارکیٹ کا دائرہ وسیع ہونے سے مشروط ہے۔ یہ دائرہ کم پیداوار کی وجہ سے لامحدود نہیں۔ گویا موجودہ شکل میں معیشت کے سارے شعبے مل کر بھی اس قابل نہیں کہ بڑھتی آبادی کو روزگار مہیا کر سکیں۔
ہمارے یہاں تعلیم اور ہنر کا پست معیار معیشت کو جدید بنانے میں مانع ہے۔ کرپشن اور ٹیکس چوری کا کلچر حکومت کے وسائل کم کر دیتے ہیں۔ ترقیاتی منصوبے رُک جاتے ہیں۔ نتیجتاً بیروزگاری اور غربت بڑھتی ہے۔ روزافزوں آبادی، سست رو معیشت، بجٹ اور زرِمبادلہ کے بحران کے نتیجے میں مہنگائی اور بیماری بڑھی۔ نتیجتاً غربت میں اضافہ ہوا۔ اگلا نتیجہ جرائم اور تہذیبی پسماندگی کی شکل میں ظاہر ہوا۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ جرائم منظم اور گھناﺅنی شکل تب اختیار کرتے ہیں جب مجرموں کو مقامی سیاستدانوں اور کرپٹ انتظامیہ کی اشیرباد میسر ہو۔ یہ صورتِ حال معاشی عمل کی راہ میں مشکلات کھڑی کر کے بیروزگاری اور غربت کا سامان کرتی ہے۔ ہمہ گیر تنزل کا یہ سلسلہ منقطع کیے بغیر غربت کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔
ضرورت یہ ہے کہ سیاست، معیشت اور انتظامیہ اس صلاحیت کے مالک بنیں کہ وہ ترقی اور انصاف کے تقاضے بیک وقت پورے کر سکیں۔ یہ صلاحیت حاصل کرنے کی پیشگی شرط ہے کہ نئی فکر، نئی قیادت، سماجی سیاست، سماجی معیشت اور بہتر انتظامیہ وجود میں آئیں۔ ہم اسے سماجی تبدیلی کہتے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024