اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ”اے مومنو! جب بولو تو بات سچی اور سیدھی کرو“ مگر سچی اور کھری بات کہنا اتنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ یہ بھی حکم الٰہی ہے کہ جو تم خود نہیں کرتے اس بارے دوسروں کو مت کہو۔ ان دو احکامات ربانی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ امر اتنا آسان نہیں جتنا ہم اکثر سوچ لیتے ہیں حالانکہ مسلمان کا یہ آئین زندگی ہونا چاہئے مگر یہ جرات اللہ تعالیٰ کسی کسی کو عطا کرتے ہیں اور پھر ہر روز اس پر عمل کرنا
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
تاریخ عالم اس بات کی گواہ ہے کہ سچ بولنے اور اس پر حقیقی معنوں میں عمل کرنے کی بعض اوقات بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور اکثر یزیدی طاقتوں کے خلاف جذبہ حسینی اور رسم شبیری ادا کرنا پڑتی ہے پھر جا کر سچائی کی فتح مبین ہوتی ہے۔ تحریک قیام پاکستان میں باطل کے سامنے سینہ سپر ہونے والی واحد‘ عزم صمیم کی مالک شخصیت قائداعظم محمد علی جناح اور اس وقت کے کاروان آزادی میں شامل ایک نوجوان مگر دوسروں سے ممتاز اپنے عظیم قائد کے زیر فرمان قلم کی حرمت اور طاقت کا سہارا لے کر شریک جہد مسلسل کا حصہ بنے۔ حمید نظامی اور اپنی برادرانہ شفقت کے زیرسایہ اثنا ثانی بنانے کے لئے اپنے چھوٹے بھائی مجید نظامی کو بھی قدم بر قدم ساتھ ملانے والے‘ ان دونوں بھائیوں نے جس فرمان نبویﷺ کو اپنی زندگی ہی نہیں بلکہ اپنے ساتھیوں کے لئے دستور حیات بنایا ”جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنا بہترین جہاد ہے“
حقیقتاً قائداعظم نے بھی اسی جذبہ جہاد کی بنیاد پر جہد مسلسل کا آغاز کیا اور جناب حمید نظامی مرحوم اپنی صحافتی زندگی میں اس جذبہ پر من و عن عمل کیا۔ نوجوان امنگوں اور ایک مشنری صحافتی اور حق گوئی کو مثال بنا کر ہر جابر سلطان کے سامنے پہاڑ کی مانند ڈٹ جانے کو اپنا شعار بنایا۔ 1962ءمیں وطن عزیز اس نڈر اور بیباک مجاہد پاکستان کی خدمات سے محروم ہو گیا مگر بقول منیر نیازی 1962ءمیں وطن عزیز اس نڈر اور بیباک مجاہد پاکستان کی خدمات سے محروم ہو گیا مگر بقول منیر نیازی
ایک وارث ضرور ہوتا ہے
تخت خالی رہا نہیں کرتا
لہٰذا اس تخت صحافت پر جناب مجید نظامی‘ (اب نباض قوم ڈاکٹر مجید نظامی) اس شان و شوکت سے جلوہ گر ہوئے کہ آمروں کے عزائم اور غیر جمہوری طرز عمل کے خلاف ہمیشہ کوہ گراں ثابت ہوئے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بقول ان کے عالمی سطح پر ”شیطانی اتحاد ثلاثہ“ یعنی امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت کے مسلم دشمن اور خصوصاً پاکستان دشمن رویوں اور سازشوں کو نہ صرف بے نقاب کرنے بلکہ اپنے بے حس اور بے حمیت حکمرانوں کو بھی تنبیہ کرتے رہنا انہی کا بیباکانہ طرز عمل ہے۔ شرافت‘ نجابت‘ سنجیدگی‘ متانت اور درویشانہ صفات کے حامل قائداعظم کے حقیقی ساتھی فکر علامہ اقبال کے پیکر پورے ملک و ملت ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے واحد بزرگ صحافی جنہوں نے 70 سالہ جہد مسلسل سے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ بلاشبہ ہمیں ان پر ناز ہے اور رہے گا۔ مجاہد ملت سے مجدد صحافت و محافظ نظریہ پاکستان اور حرمت وطن کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے والے‘ جناب ڈاکٹر مجید نظامی‘ خاموش طبع اور بحر سکون کے حامل .... حقیقتاً ان کی شخصیت کا احاطہ کرنا چند صفحات میں ممکن نہیں ہاں ان کی پرعزم اور ہمہ وقت متانت و سنجیدگی کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے
عزم رکھے تو فصیلوں کے سروں پر رکھے
زخم رکھا تو سمندر سے بھی گہرا رکھا
دعا ہے اللہ تعالیٰ انہیں صحت و تندرستی اور عالم اسلام کی خدمت کا ”لازوال جذبہ“ برقرار رکھے۔
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024